قتل عمد میں عفو کرنے کا بیان
امام مالک نے کئی اچھے عالموں سے سنا کہ وہ کہتے تھے کہ جب مقتول مرتے وقت اپنے قاتل کو معاف کر دے تو درست ہے قتل عمد میں اس کو اپنے خون کا زیادہ اختیار ہے وارثوں سے۔ کہا مالک نے جو شخص قاتل کو عمداً معاف کردے تو قاتل پر دیت لازم نہ ہوگی مگر جب کہ قصاص عفو (معاف) کر کے دیت ٹھہرا لے۔ کہا مالک نے اگر قاتل کو مقتول معاف کردے تب بھی قاتل کو سو کوڑے لگائیں گے اور ایک سال تک قید کریں گے۔ کہا مالک نے جب کوئی شخص عمداً مارا گیا اور گواہوں سے قتل ثابت ہوا اور مقتول کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں بیٹوں نے تو معاف کردیا لیکن بیٹیوں نے معاف نہ کیا تو بیٹیوں کے معاف کرنے سے کچھ خلل واقع نہ ہوگا بلکہ خون معاف ہوجائے گا کیونکہ بیٹوں کے ہوتے ہوئے ان کو اختیار نہیں ہے۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ جو شخص کسی کا ہاتھ یا پاؤں توڑ ڈالے تو اس سے قصاص لیا جائے گا دیت لازم نہ آئے گی۔ کہا مالک نے زخم کا قصاص نہ لیا جائے گا جب تک کہ وہ شخص اچھا نہ ہو لے جب وہ اچھا جائے گا تو قصاص لیں گے اب اگر جارح کا بھی زخم اچھا ہو کر مجروح کے مثل ہوگیا تو بہتر نہیں تو اگر جارح کا زخم بڑھ گیا اور جارح اسی کی وجہ سے مرگیا تو مجروح پر کچھ تاوان نہ ہوگا اگر جارح کا زخم بالکل اچھا ہوگیا اور مجروح کا ہاتھ شل ہوگیا یا اور کوئی نقص رہ گیا تو پھر جارح سے قصاص نہ لیا جائے گا لیکن بقدر نقصان کے دیت اس سے وصول کی جائے گی۔ کہا مالک نے اگر کسی شخص نے اپنی عورت کی آنکھ پھوڑ دی یا اس کا ہاتھ توڑ ڈالا یا اس کی انگلی کاٹ ڈالی قصداً تو اس سے قصاص لیا جائے گا البتہ اگر اپنی عورت کو تنبیہاً رسی یا کوڑے سے مارے اور بلاقصد کسی مقام پر لگ کر زخم ہوجائے یا نقصان ہوجائے تو دیت لازم آئے گی قصاص نہ ہوگا۔ امام مالک کو پہنچا کہ ابوبکر بن حزم نے قصاص لیا ران توڑنے کا۔