نانی اور دادی کی میراث کا بیان
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے جس میں کچھ اختلاف نہیں ہے کہ نانی ماں کے ہوتے ہوئے کچھ نہ پائے گی البتہ اگر ماں نہ ہو تو اس کو چھٹا حصہ ملے گا اور دادی ماں کے یا باپ کے ہوتے ہوئے کچھ نہ پائے گی جب ماں باپ نہ ہوں تو اس کو چھٹا حصہ ملے گا اگر نانی اور دادی دونوں ہوں اور میت کے ماں باپ جو نانی دادی سے زیادہ قریب ہیں نہ ہوں تو ان میں سے نانی اگر میت کے ساتھ زیادہ قریب ہوگی تو اسی کو سدس (چھٹا حصہ) ملے گا۔ اور جو دادی زیادہ قریب ہوگی یا دونوں برابر ہوں تو سدس میں دونوں شریک ہوں گے۔ کہا مالک نے میراث کسی کے واسطے نہیں ہے دادیوں اور نانیوں میں سے مگر ماں کی ماں کو اگرچہ کتنی ہی دور ہوجائے۔ ان کے سوا اور نانیوں دادیوں کو میراث (دینا مقرر) نہیں ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ترکہ دلایا نانی کو پھر ابوبکر نے بھی اس کا پوچھا جب ان کو بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے نانی کو ترکہ دلایا انہوں نے دلایا بعد اس کے دادی حضرت عمر کے وقت میں آئی آپ نے فرمایا میں فرائض کو بڑھا نہیں سکتا لیکن اگر تو بھی ہو اور نانی بھی ہو تو دونوں سدس (چھٹا) کو بانٹ لیں اور جو کوئی تم میں سے تنہا ہو تو وہ پورا سدس (چھٹا) لے لے۔