Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (242 - 403)
Select Hadith
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
287
288
289
290
291
292
293
294
295
296
297
298
299
300
301
302
303
304
305
306
307
308
309
310
311
312
313
314
315
316
317
318
319
320
321
322
323
324
325
326
327
328
329
330
331
332
333
334
335
336
337
338
339
340
341
342
343
344
345
346
347
348
349
350
351
352
353
354
355
356
357
358
359
360
361
362
363
364
365
366
367
368
369
370
371
372
373
374
375
376
377
378
379
380
381
382
383
384
385
386
387
388
389
390
391
392
393
394
395
396
397
398
399
400
401
402
403
معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 114
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَلَا قَوْلَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي إِبْرَاهِيمَ: {رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي} وَقَالَ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ: {إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ} فَرَفَعَ يَدَيْهِ وَقَالَ: «اللهُمَّ أُمَّتِي أُمَّتِي»، وَبَكَى، فَقَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: «يَا جِبْرِيلُ اذْهَبْ إِلَى مُحَمَّدٍ، وَرَبُّكَ أَعْلَمُ، فَسَلْهُ مَا يُبْكِيكَ؟» فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ، فَسَأَلَهُ فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا قَالَ، وَهُوَ أَعْلَمُ، فَقَالَ اللهُ: " يَا جِبْرِيلُ، اذْهَبْ إِلَى مُحَمَّدٍ، فَقُلْ: إِنَّا سَنُرْضِيكَ فِي أُمَّتِكَ، وَلَا نَسُوءُكَ " (رواه مسلم)
شفاعت
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قرآن پاک میں حضرت ابراہیمؑ کے متعلق یہ آیت تلاوت فرمائی: "رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي" (میرے پروردگار! ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے، یعنی ان کی وجہ سے بہت سے آدمی گمراہ ہوئے، پس جو لوگ میری پیروی کریں وہی میرے ہیں، پس ان کے لیے تو میں تجھ سے عرض کرتا ہوں کہ ان کو تو بخش ہی دے) اور عیسیٰ کا یہ قول بھی تلاوت فرمایا، جو قرآن پاک میں ہے: "إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ" (اے اللہ! اگر میری امت کے ان لوگوں کو عذاب دیں، تو یہ آپ کے بندے ہیں، یعنی آپ کو عذاب و سزا کا پورا حق ہے) یہ دونوں آیتیں تلاوت فرما کر رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو یاد کیا، اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے، اور کہا: "اے میرے اللہ! میری امت، میری امت! اور آپ اس دعا میں روئے، اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل کو فرمایا، تم محمد کے پاس جاؤ۔ اور اگرچہ تمہارا رب سب کچھ خوب جانتا ہے مگر پھر بھی تم جا کر ہماری طرف سے پوچھو، کہ ان کے اس رونے کا کیا سبب ہے۔ پس جبرئیل آپ کے پاس آئے، اور آپ سے پوچھا، آپ نے جبرئیل کو وہ بتلا دیا جو اللہ سے عرض کیا تھا (یعنی یہ کہ اس وقت میرے رونے کا سبب امت کی فکر ہے، جبرئیل نے جا کر اللہ تعالیٰ سے عرض کیا) تو اللہ تعالیٰ نے جبرئیل کو فرمایا، کہ محمد کے پاس جاؤ، اور ان کو ہماری طرف سے کہو، کہ تمہاری امت کے بارہ میں ہم تمہیں راضی اور خوش کر دیں گ اور تمہیں رنجیدہ اور غمگین نہیں کریں گے"۔ (مسلم)
تشریح
حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قرآن مجید کی دو آیتوں کی تلاوت فرمائی، ایک سورہ ابراہیم کی آیت، جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کے متعلق ذکر فرمایا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اپنی قوم اور اپنی امت کے بارے میں عرض کیا، کہ "فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي، وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ" (یعنی ان میں سے جن لوگوں نے میری بات مانی وہ تو میرے ہیں (اور میں ان کے لیے آپ سے مغفرت کی درخواست کرتا ہوں) اور جنہوں نے میری نافرمانی کی، تو آپ غفور رحیم ہیں، چاہیں تو ان کو بھی بخش سکتے ہیں)۔ اور دوسری آیت سورہ مائدہ کی، جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ذکر ہے، کہ وہ اپنے گمراہ امتیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے عرض کریں گے، کہ "إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ" (اگر آپ ان کو عذاب دیں، تو یہ آپ کے بندے ہیں، اور آپ کو عذاب دینے کا پورا حق ہے، اور اگر آپ ان کو بخش دیں تو آپ غالب ہیں (سب کچھ کر سکتے ہیں) اور حکیم ہیں (جو کچھ کریں گے حکمت کے مطابق ہی ہو گا)۔ ان دونوں آیتوں میں اللہ کے دونوں جلیل القدر پیغمبروں نے پورے ادب، اور بڑی احتیاط کے ساتھ اپنی اپنی امتوں کے خطاکار لوگوں کے لیے دے لفظوں میں سفارش کی ہے۔ ان آیتوں کی تلاوت نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی امت کا مسئلہ یاد دلایا، اور آپ نے ہاتھ اٹھا کر اور رو کر بارگاہِ الہی میں اپنی فکر کو عرض کیا، جس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اطمینان دلایا، کہ آپ کی امت کا مسئلہ آپ کی مرضی اور خوشی کے مطابق ہی طے کر دیا جائے گا اور اس معاملہ کی وجہ سے آپ کو رنجیدہ اور غمگین ہونا نہیں پڑے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ ہر پیغمبر کو اپنی امت کے، بلکہ ہر مقتدا کو اپنے متبعین اور منتسبین کے ساتھ ایک خاص قسم کی شفقت کا تعلق ہوتا ہے جس طرح کہ ہر شخص کو اپنی اولاد کے ساتھ ایک خاص تعلق ہوتا ہے جو دوسرے انسانوں کے ساتھ نہیں ہوتا، اور اس تعلق کی وجہ سے ان کی قدرتی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے عذاسب سے چھٹکارا پائیں، اور اس شفقت اور رأفت میں رسول اللہ ﷺ سب پیغمبروں سے بڑھے ہوئے ہیں اور اس لیے قدرتی طور پر آپ کی یہ بڑی خواہش ہے، جو مختلف موقعوں پر بار بار آپ سے ظاہر ہوئی کہ آپ کی امت دوزخ میں نہ جائے، اور جن کی بدعملی اس درجہ کی ہو، کہ ان کا دوزخ میں ڈالا جانا، اور کچھ عذاب پانا ناگزری ہو ان کو کچھ سزا پانے کے بعد نکال لیا جائے، چنانچہ مندرجہ بالا احادیث سے معلوم ہو چکا کہ اللہ تعالیٰ آپ کی اس خواہش کو پورا فرمائیں گے، اور آپ کی شفاعت سے بہت سے لوگ جہنم سے بچ جائیں گے، اور بہت سے ڈالے جانے کے بعد نکال لئے جائیں گے۔ شفاعت کے سلسلے کی حدیثوں میں صحیح مسلم کی یہ حدیث ہم جیسے خطاکاروں، گنہگاروں کے لیے بڑا سہارا ہے اور اس میں بڑی بشارت ہے، بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ے جبرئیل سے اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام سن کر فرمایا: میں تو جب مطمئن اور خوش ہوں گا جب میرا کوئی امتی بھی دوزخ میں نہیں رہے گا۔ ع بریں مژدہ گرجاں فشانم رواست ف۔۔۔ اللہ تعالیٰ کو بطور خود سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود رونے کا سبب پوچھنے کے لیے حضرت جبرئیل کو رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیجنا صرف آپ کے اکرام و اعزاز کے طور پر تھا، کہ اپنے مقربین کے ساتھ بادشاہوں کا یہی طرز ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔
Top