Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (1371 - 1737)
Select Hadith
1371
1372
1373
1374
1375
1376
1377
1378
1379
1380
1381
1382
1383
1384
1385
1386
1387
1388
1389
1390
1391
1392
1393
1394
1395
1396
1397
1398
1399
1400
1401
1402
1403
1404
1405
1406
1407
1408
1409
1410
1411
1412
1413
1414
1415
1416
1417
1418
1419
1420
1421
1422
1423
1424
1425
1426
1427
1428
1429
1430
1431
1432
1433
1434
1435
1436
1437
1438
1439
1440
1441
1442
1443
1444
1445
1446
1447
1448
1449
1450
1451
1452
1453
1454
1455
1456
1457
1458
1459
1460
1461
1462
1463
1464
1465
1466
1467
1468
1469
1470
1471
1472
1473
1474
1475
1476
1477
1478
1479
1480
1481
1482
1483
1484
1485
1486
1487
1488
1489
1490
1491
1492
1493
1494
1495
1496
1497
1498
1499
1500
1501
1502
1503
1504
1505
1506
1507
1508
1509
1510
1511
1512
1513
1514
1515
1516
1517
1518
1519
1520
1521
1522
1523
1524
1525
1526
1527
1528
1529
1530
1531
1532
1533
1534
1535
1536
1537
1538
1539
1540
1541
1542
1543
1544
1545
1546
1547
1548
1549
1550
1551
1552
1553
1554
1555
1556
1557
1558
1559
1560
1561
1562
1563
1564
1565
1566
1567
1568
1569
1570
1571
1572
1573
1574
1575
1576
1577
1578
1579
1580
1581
1582
1583
1584
1585
1586
1587
1588
1589
1590
1591
1592
1593
1594
1595
1596
1597
1598
1599
1600
1601
1602
1603
1604
1605
1606
1607
1608
1609
1610
1611
1612
1613
1614
1615
1616
1617
1618
1619
1620
1621
1622
1623
1624
1625
1626
1627
1628
1629
1630
1631
1632
1633
1634
1635
1636
1637
1638
1639
1640
1641
1642
1643
1644
1645
1646
1647
1648
1649
1650
1651
1652
1653
1654
1655
1656
1657
1658
1659
1660
1661
1662
1663
1664
1665
1666
1667
1668
1669
1670
1671
1672
1673
1674
1675
1676
1677
1678
1679
1680
1681
1682
1683
1684
1685
1686
1687
1688
1689
1690
1691
1692
1693
1694
1695
1696
1697
1698
1699
1700
1701
1702
1703
1704
1705
1706
1707
1708
1709
1710
1711
1712
1713
1714
1715
1716
1717
1718
1719
1720
1721
1722
1723
1724
1725
1726
1727
1728
1729
1730
1731
1732
1733
1734
1735
1736
1737
معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 2113
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ؟ قَالَ: «الْقَرْنُ الَّذِي أَنَا فِيهِ، ثُمَّ الثَّانِي، ثُمَّ الثَّالِثُ»
فضائل اصحاب النبی ﷺ
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ سب سے بہتر کس زمانے کے لوگ ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں، پھر ان کے بعد کے زمانہ کے لوگ اور پھر ان کے بعد کے زمانہ کے لوگ۔
تشریح
حضرت عمرو بن العاص ؓ اسلام لانے سے پہلے ان کا شمار سرداران قریش میں ہوتا تھا نہایت جری اور ذہانت و فطانت میں ضرب المثل تھے۔ حضرت خالد بن الولیدؓ کے ساتھ مدینہ طیبہ حاضر ہو کر ۸ھ میں ایمان لائے ہیں۔لیکن خود اپنے ایمان لانے کا تذکرہ جس طرح کرتے ہیں اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ مدینہ طیبہ آنے سے پہلے ہی مسلمان ہو چکے تھے البتہ آپ کی خدمت میں حاضری اور بیعت علی الاسلام حضرت خالد کے ساتھ ہی ہوئی۔ (2) وہ اپنے اسلام لانے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ غزوہ خندق سے واپسی کے بعد مکہ آ کر میں نے خاندان قریش کے کچھ ایسے لوگوں کو جمع کیا جو مجھ سے قریبی تعلق رکھتے تھے اور میرا احترام بھی کرتے تھے میں نے ان سے کہا کہ میرا خیال یہ ہے کہ اب تو بظاہر محمد (ﷺ) کے دین کا بول بالا ہی ہو کر رہے گا میری رائے یہ ہے کہ ہم لوگ ملک حبشہ چلے جائیں اور بادشاہ نجاشی کی حمایت میں رہیں اگر محمد (ﷺ) اہل مکہ پر غالب آ بھی جائیں گے تب بھی ہم وہاں محفوظ رہیں گے۔ محمد (ﷺ) کی ماتحتی میں رہنے کے مقابلہ میں نجاشی کی ما تحتی میں رہنا پسن ہے اور اگر اہل مکہ غالب آ گئے تو اہل مکہ میں ہمارا مقام تو معروف ہی ہے۔ میرے ساتھیوں نے میری تائید کی اور میں بہت سے ہدایا لے کر نجاشی کی خدمت میں حاضر ہوا وہاں میں نے حضرت عمرو بن امیہ ضمریؓ کو دیکھا جو رسول اللہ ﷺ کے قاصد کی حیثیت سے نجاشی کے پاس آئے تھے میں نے نجاشی سے کہا یہ شخص ہمارے دشمن (محمد) کا قاصد ہے آپ اس کو ہمارے حوالہ کر دیں تا کہ ہم اس کو قتل کر دیں۔ نجاشی نے میری اس بات پر بہت ناگواری کا اظہار کیا اور کہا تم جانتے نہیں یہ شخص جس کا قاصد ہے وہ اسی طرح اللہ کا رسول ہے جس طرح حضرت موسیٰ اللہ کے رسول تھے۔ میں نے کہا کیا واقعی؟ نجاشی نے کہا تمہارا برا ہو تم میری اطاعت اور ان نبی (ﷺ) کی اتباع کرو واللہ وہ بالکل برحق ہیں اور واللہ وہ اپنے مخالفین پر ایسے ہی غالب آئیں گے جیسے موسیٰ (علیہ السلام) فرعون اور اس کے لشکر پر غالب آ گئے تھے اس کے بعد حضرت عمرو بن العاصؓ نے نجاشی کے ہاتھ پر بیعت علی الاسلام کر لی وہیں سے اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر مدینہ کی راہ لی راستہ میں حضرت خالدؓ ملے ہیں اور ان کے ساتھ مدینہ طیبہ جا کر آپ کے دست مبارک پر بیعت کی ہے اور اسلام کا اظہار کیا ہے۔ (1) صحیح مسلم کی روایت میں آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کرنے کی مزید تفصیل ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ہاتھ بڑھائیے میں آپ سے بیعت کرنا چاہتا ہوں جب آپ نے میری طرف ہاتھ بڑھایا تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا آپ نے فرمایا عمرو کیا ہوا میں نے عرض کیا ایک شرط پر بیعت کرتا ہوں آپ نے فرمایا کیا شرط ہے میں نے عرض کیا میرے ماضی کے جملہ گناہ معاف ہونے چاہئیں آپ ﷺ نے فرمایا تمہیں معلوم نہیں کہ ایمان لانے سے ماضی کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ (1) فضائل حضرت عمرو بن العاص ؓ بڑے بہادر نہایت ذہین و فطین اور میدان جنگ میں کارہائے نمایاں انجام دینے والے صحابی ہیں ان کے ایمان لانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ان کی ان صلاحیتوں کو خوب استعمال فرمایا ہے۔ خود فرماتے ہیں "مَا عَدَلَ بِي رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وبخالد مُنْذُ أَسْلَمْنَا أَحَداً مِنْ أَصْحَابِهِ فِي حَرْبِهِ " (2) یعنی میرے اور خالد کے ایمان لانے کے بعد میدان جنگ کے لئے آپ نے کسی کو بھی ہم دونوں کے مساوی نہیں سمجھا۔ انہیں آپ نے بڑے بڑے صحابہ کرام کی موجودگی میں لشکر کا امیر بنا کر بھیجا ہے غزوہ ذات السلاسل کے لئے جانے والے لشکر میں حضرت ابو بکرؓ و عمرؓ بھی موجود ہیں لیکن امیر لشکر حضرت عمرو بن العاصؓ کو بنایا۔ (1) فتح مکہ کے معاً بعد آپ نے حضرت عمرو بن العاصؓ کے ساتھ کچھ صحابہ کرام کو قبیلہ ہذیل کے بت سواع کو توڑنے کے لئے بھیجا۔ جب حضرت عمرو بن العاصؓ وہاں پہنچے تو اس کے مجاور نے کہا تم لوگ اس کو توڑ نہیں سکتے یہ خود اپنی حفاظت کرے گا۔ لیکن جب حضرت عمرو بن العاص ؓ وغیرہ نے اس کو توڑ دیا تو وہ مجاور اپنے معبود کی بےکسی دیکھ کر مسلمان ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ ان کے ایمان لانے کی بڑی قدر کرتے تھے۔ فرماتے ہیں "اسلم الناس وامن عمرو بن العاص" (4) جس کا مطلب یہ ہے کہ عمرو بن العاص دل سے ایمان لانے والے ہیں ان کو بھی ایمان لانے کے بعد آپ ﷺ کی ذات سے غیر معمولی محبت اور تعلق ہو گیا تھا۔ صحیح مسلم کی وہ روایت جس کا کچھ حصہ ابھی گزرا ہے اسی میں یہ بھی مذکور ہے کہ "مَا كان أَحَدٌ أَحَبُّ إِلَيَّ من رسول الله صلى الله عليه ولم ولا اجل فى عينى منه وما كنت اطيق ان املا عينى منه اجلا لا له ولو سئلت ان اصفه اطقت لانى لم اكن املا عينى منه" یعنی ایمان لانے کے بعد میری یہ حالت ہو گئی کہ میری نظر میں آپ ﷺ سے زیادہ کوئی محبوب و محترم نہ تھا اور میرے دل میں آپ کی عظمت و جلالت کا یہ حال تھا کہ میں نظر بھر کر آپ ﷺ کو دیکھ بھی نہ سکتا تھا۔ اگر کوئی مجھ سے آپ کا حلیہ مبارک بیان کرنے کو کہے تو میں آپ کا حلیہ بھی بیان نہ کر سکوں گا اس لئے کہ میں کبھی آپ کو نظر بھر کر دیکھ یہ نہ سکا تھا۔ رسول اللہ ﷺ بھی ان کی اس محبت کا اعتراف فرماتے تھے ایک بار آپ ﷺ نے ان کے لئے دعا کی اور اللہ تعالیٰ سے یوں عرض کیا۔ "اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى عَمْرِو بنِ العَاصِ، فَإِنَّهُ يُحِبُّكَ وَيُحِبُّ رَسُوْلَكَ" (5) الٰہی عمرو بن العاص پر رحمتیں نازل فرمائیے اس لئے کہ وہ آپ سے اور آپ کے رسول ﷺ سے محبت کرتے ہیں۔ ایک بار آپ نے ان کے لئے تین بار يرحم الله عمروا (اللہ عمرو بن العاص پر رحم فرمائے) دعا فرمائی، کسی صحابی نے اس کی وجہ دریافت فرمائی تو فرمایا وہ اللہ کے راستہ میں بےدریغ خرچ کرتے ہیں۔ (1) جامع ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے ان کے بارے میں فرمایا۔ "عمرو بن العاص من صالحى قريش" (2) (عمرو بن العاص قریش کے بہترین لوگوں میں سے ہیں) ایک بار رسول اللہ ﷺ نے ان کو اطلاع کرائی کہ کپڑے پہن کر اور ہتھیار لگا کر (یعنی جہاد کے لئے تیار ہو کر) چلے آؤ۔ جب وہ آ گئے تو آپ نے ان سے فرمایا میں کو ایک لشکر کا امیر بنا کر بھیجنا چاہتا ہوں جہاں سے ان شاء اللہ تم سالماً غانماً واپس آؤ گے۔ وہ کہتے ہیںٰ کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں مال کی خاطر اسلام نہیں لایا۔ میرا مقصود تو اسلام ہی ہے آپ نے فرمایا "نعم المال الصالح للرجل الصالح" (اللہ کے نیک بندہ کے لئے پاک مال بہترین چیز ہے، (3) وفات ۴۳ھ میں عید کی رات میں مصر میں وفات پائی اور عید الفطر کے دن دفن کئے گئے آپ کے صاحبزادہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ عابد، زاہد، شب بیدار، بکثرت روزے رکھنے والے اور بہت زیادہ تلاوت کرنے والے، علم کے گویا صحابی بن صحابی حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ اپنے والد حضرت عمرو بن العاصؓ سے پہلے ایمان لائے ہیں۔ وہ اپنے والد کے سب سے بڑے بیٹے ہیں ان کی پیدائش کے وقت عمر بن العاص کی عمر زیادہ سے زیادہ اکیس سال ذکر کی جاتی ہے۔ (4) فضائل حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ بڑے اصحاب الفضائل صحابہ کرامؓ میں شمار ہوتے ہیں۔ نہایت عابد و زاہد اور شب بیدار تھے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت کے حوالہ سے ان کی ان صفات کا تذکرہ پڑھئے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب نے میری شادی ایک شریف خاندان کی لڑکی سے کر دی تھی وہ اپنی بہو کا بہت خیال کرتے اور میرے طرز عمل کے بارے میں اس سے دریافت کرتے رہتے تھے ان کے سوال کے جواب میں ایک دن میری بیوی نے کہا میرے شوہر بہت نیک، متقی، پرہیزگار آدمی ہیں لیکن مجھ سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ والد صاحب نے آپ کا فرمان مجھ تک پہنچا دیا۔ میں خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو فرمایا روزے رکھنے کا تمہار معمول کیا ہے۔ میں نے عرض کیا روزانہ روزہ رکھتا ہوں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا ختم قرآن کے سلسلہ میں کیا معمول ہے؟ میں نے عرض کیا ہر رات ایک قرآن ختم کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا مہینہ میں صرف تین روزے رکھا کرو اور ایک ماہ میں ایک قرآن ختم کیا کرو۔ میں نے عرض کیا میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہر ہفتہ تین روزے رکھ لیا کرو۔ میں نے عرض کیا میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا تو ایسا کرو کہ دو دن چھوڑ کر ایک روزہ رکھ لیا کرو میں نے عرض کیا میں اس سے بھی زیادہ روزتے رکھنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ تب آپ ﷺ نے فرمایا روزے رکھنے میں سب سے بہتر طریقہ حضرت داؤد علیہ السلام کا طریقہ ہے یعنی ایک دن افطار ایک دن روزہ۔ تم بھی ایسا ہی کیا کرو اور قرآن مجید کا ایک ختم سات راتوں میں کیا کرو۔ اس روایت سے ان کے روزوں اور تلاوت قرآن کا حال معلوم ہوا، روایت کے آخری حصہ میں یہ بھی ہے کہ بڑھاپے تک ان کا معمول یہی رہا بلکہ بڑھاپے میں قرآن مجید کا جو ساتواں حصہ رات کو پڑھنا ہوتا تھا وہ دن میں بھی گھر کے کسی فرد کو سنا لیا کرتے تھے تا کہ رات کو پڑھنے میں سہولت ہو اور روزوں کے معمول میں اگر کبھی خلل پڑھ جایا کرتا تھا تو اس کا حساب رکھتے تھے اور بعد میں اس کی تلافی کر لیا کرتے تھے۔ (1) وہ رات کو اپنا کمرہ اندر سے بند کر لیتے، چراغ کل کر دیتے اور ساری رات اللہ کے حضور گریہ و زاری کرتے رہتے تھے روتے روتے ان کی آنکھیں ورم کر آتیں تھیں۔ (2) رسول اللہ ﷺ سے بکثرت روایات نقل کی ہیں آپ ﷺ کی حیات طیبہ ہی میں آپ ﷺ کی اجازت سے روایات لکھ لیا کرتے تھے، انہوں نے احادیث کا ایک مجموعہ جس کا نام خود ہی صادقہ رکھا تھا تیار کر لیا تھا۔ اسی مجموعہ احادیث (صادقہ) کی روایت عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی سند سے ابو داؤد و ترمذی، نسائی وغیرہم نے نقل کی ہیں۔ ان کی روایت کردہ احادیث کی تعداد سات سو ہے۔ (3) رسول اللہ ﷺ کے علاوہ اکابر صحابہ کرامؓ سے بھی روایت کرتے ہیں، ان کے شاگردوں میں بہت سارے جلیل القدر تابعین ہیں ان کے اور ان کے والدین کے متعلق ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا "نعم اهل البيت عبدالله وابو عبدالله وام عبدالله" یعنی عبداللہ، ان کے والد اور ان کی والدہ یہ سب اہل بیت کیا کیا ہی خوب اہل بیت ہیں۔ (4) وفات ۶۵ھ میں مصر میں وفات پائی اور وہیں دفن کئے گئے۔ (5) حضرت عبداللہ بن عمرو بن حزام ؓ حضرت عبداللہ بن عمرو مشہور صحابی حضرت جابرؓ کے والد ہیں رسول اللہ ﷺ کے مدینہ طیبہ ہجرت فرمانے سے پہلے ہی آپ کی خدمت میں مکہ معظمہ حاضر ہو کر مشرف باسلام ہوئے اور بیعت عقبہ ثانیہ میں شریک ہوئے۔ آپ ﷺ نے ان کو اپنے قبیلہ کا نقیب بنا کر مدینہ طیبہ واپس کر دیا۔ رسول اللہ ﷺ کے مدینہ طیبہ تشریف لانے کے بعد حضرت عبداللہ غزوہ بدر و احد دونوں میں شریک ہوئے ہیں اور غزوہ احد ہی میں شہید ہو گئے۔ (1) ان کو غزوہ احد میں اپنی شہادت سے پہلے ہی اندازہ ہو گیا تھا اسی لئے انہوں نے اپنے بیٹے حضرت جابرؓ سے فرمایا میرا خیال ہے کہ میں کل سب سے پہلے شہید ہونے والے لوگوں میں ہوں گا تم میرے بعد اپنی بہنوں کا خیال رکھنا اور میرے ذمہ جو قرض ہے اس کی ادائیگی کر دینا۔ (2) فضائل وہ بڑے صاحب فضیلت صحابی ہیں مکہ جا کر اسلام لائے اور پھر مدینہ طیبہ میں آپ کے ساتھ غزوہ بدر واحد میں شریک ہوئے۔ غزوہ احد میں ان کی شہادت ہوئی ہے۔ مشرکین نے ان کو قتل کرنے کے بعد ان کے اعضاء جسم کاٹ کر مثلہ کر دیا تھا۔ ان کے بیٹے حضرت جابر ابھی بالکل نوعمر ہی تھے ان پر اور ان کی پھوپھی یعنی حضرت عبداللہ کی بہن فاطمہ بنت حزام پر اس حادثہ کا بہت اثر تھا جس کی وجہ سے یہ دونوں بہت زیادہ رو رہے تھے۔ آپ نے ان دونوں کی تسلی کے لئے فرمایا کہ عبدالہ بن عمرو کی شہادت کے بعد سے اللہ کے مقرب فرشتے مسلسل ان پر سایہ کئے ہوئے ہیں۔ (3) حضرت جابر اور ان کے خاندان کے دیگر افراد حضرت عبداللہ کو اپنے خاندانی قبرستان میں دفن کرنے کے لئے میدان احد سے مدینہ طیبہ لے آئے تھے آپ نے ان کے جنازہ کو مدینہ سے میدان احد منگوا لیا، اور پھر وہ وہیں دیگر شہدائے احد کے ساتھ دفن کئے گئے۔ (4) غزوہ احد میں شہداء کی تعداد زیادہ تھی۔ جو لوگ زندہ بچ رہے تھے ان میں بھی خاصی تعداد زخمیوں کی تھی۔ خود رسول اللہ ﷺ بھی زخمی تھے۔ اس لئے آپ نے ایک قبر میں دو دو، تین تین شہداء کو دفن کرنے کی اجازت دے دی تھی اور جو شخص ان میں قرآن کا زیادہ حافظ و عالم ہوتا اس کو مقدم الی القبلہ رکھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کو بھی ایک یا دو شہیدوں کی ساتھ دفن کیا اور ان کو مقدم رکھا گیا۔ ان کی شہادت کے بعد ایک دن رسول اللہ ﷺ نے حضرت جابرؓ سے فرمایا اللہ تعالیٰ کسی سے بھی بالمشافہ تکلم نہیں فرماتا ہے لیکن تمہارے والد سے بالمشافہ گفتگو فرمائی ہے اور اللہ نے ان سے یہ بھی فرمایا ہے کہ میرے بندے جو چاہو مانگو میں تمہاری ہر خواہش پوری کروں گا۔ اس پر تمہارے والد نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا اے میرے رب مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج دیجئے تا کہ دوبارہ پھر آپ کے راستہ میں شہادت نصیب ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میری جانب سے یہ فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہے کہ مرنے کے بعد کوئی دوبارہ دنیا میں نہیں بھیجا جائے گا۔ (1) امام مالکؒ نے اپنی کتاب مؤطا میں ایک عجیب و غریب واقعہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کی قبر کے متعلق ذکر کیا ہے۔ کہ حضرت عبداللہ بن عمرو اور حضرت عمروؓ بن جموح کی قبروں کو پانی کے بہاؤ نے کھول دیا تھا لوگوں نے ان دونوں صحابہ کرامؓ کی مبارک نعشوں کو وہاں سے منتقل کرنے کے لئے ان کی قبروں کو کھودا تو دیکھا کہ دونوں کے جسم بالکل صحیح سلامت اور ترو تازہ ہیں جیسے کل ہی انتقال ہوا ہے۔ حالانکہ ان حضراتؓ کی شہادت کو چھیالیس سال ہو چکے تھے۔ (2) موطا امام مالک میں تو یہ واقعہ غزوہ احد کے چھیالیس سال بعد کا ذکر کیا گیا ہے ..... صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ میرے والد کو یوم احد میں مجبوراً ایک اور صحابی کے ساتھ دفن کیا گیا تھا۔ مجھے یہ بات اچھی نہ لگتی تھی میں نے شہادت کے چھ ماہ کے بعد ان کی اس قبر سے نکال کر دوسری قبر میں دفن کر دیا اور ان کا جسم مبارک بالکل ویسا ہی تھا جیسا کہ دفن کیا گیا تھا۔ (3) اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کے ساتھ دوبارہ ایسا واقعہ پیش آیا۔ پہلی بار شہادت کے چھ ماہ کے بعد اور دوسری بار شہادت کے چھیالیس سال بعد۔ اس طرح کا واقعہ بعض دوسرے شہداء کرامؓ کے ساتھ بھی پیش آیا ہے۔
Top