Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (1371 - 1737)
Select Hadith
1371
1372
1373
1374
1375
1376
1377
1378
1379
1380
1381
1382
1383
1384
1385
1386
1387
1388
1389
1390
1391
1392
1393
1394
1395
1396
1397
1398
1399
1400
1401
1402
1403
1404
1405
1406
1407
1408
1409
1410
1411
1412
1413
1414
1415
1416
1417
1418
1419
1420
1421
1422
1423
1424
1425
1426
1427
1428
1429
1430
1431
1432
1433
1434
1435
1436
1437
1438
1439
1440
1441
1442
1443
1444
1445
1446
1447
1448
1449
1450
1451
1452
1453
1454
1455
1456
1457
1458
1459
1460
1461
1462
1463
1464
1465
1466
1467
1468
1469
1470
1471
1472
1473
1474
1475
1476
1477
1478
1479
1480
1481
1482
1483
1484
1485
1486
1487
1488
1489
1490
1491
1492
1493
1494
1495
1496
1497
1498
1499
1500
1501
1502
1503
1504
1505
1506
1507
1508
1509
1510
1511
1512
1513
1514
1515
1516
1517
1518
1519
1520
1521
1522
1523
1524
1525
1526
1527
1528
1529
1530
1531
1532
1533
1534
1535
1536
1537
1538
1539
1540
1541
1542
1543
1544
1545
1546
1547
1548
1549
1550
1551
1552
1553
1554
1555
1556
1557
1558
1559
1560
1561
1562
1563
1564
1565
1566
1567
1568
1569
1570
1571
1572
1573
1574
1575
1576
1577
1578
1579
1580
1581
1582
1583
1584
1585
1586
1587
1588
1589
1590
1591
1592
1593
1594
1595
1596
1597
1598
1599
1600
1601
1602
1603
1604
1605
1606
1607
1608
1609
1610
1611
1612
1613
1614
1615
1616
1617
1618
1619
1620
1621
1622
1623
1624
1625
1626
1627
1628
1629
1630
1631
1632
1633
1634
1635
1636
1637
1638
1639
1640
1641
1642
1643
1644
1645
1646
1647
1648
1649
1650
1651
1652
1653
1654
1655
1656
1657
1658
1659
1660
1661
1662
1663
1664
1665
1666
1667
1668
1669
1670
1671
1672
1673
1674
1675
1676
1677
1678
1679
1680
1681
1682
1683
1684
1685
1686
1687
1688
1689
1690
1691
1692
1693
1694
1695
1696
1697
1698
1699
1700
1701
1702
1703
1704
1705
1706
1707
1708
1709
1710
1711
1712
1713
1714
1715
1716
1717
1718
1719
1720
1721
1722
1723
1724
1725
1726
1727
1728
1729
1730
1731
1732
1733
1734
1735
1736
1737
معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 2111
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ؟ قَالَ: «الْقَرْنُ الَّذِي أَنَا فِيهِ، ثُمَّ الثَّانِي، ثُمَّ الثَّالِثُ»
فضائل اصحاب النبی ﷺ
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ سب سے بہتر کس زمانے کے لوگ ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں، پھر ان کے بعد کے زمانہ کے لوگ اور پھر ان کے بعد کے زمانہ کے لوگ۔
تشریح
حضرت عبادہ بن صامت ؓ حضرت عبادہؓ کا تعلق مدینہ طیبہ کے قبیلہ خزرج سے ہے۔ مکہ معظمہ آ کر بیعت عقبہ اولیٰ کے موقع پر ایمان لائے تھے۔ یہ واقعہ ۱۲ نبوی کا ہے۔ اس سے ایک سال پہلے حج کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے منیٰ میں جمرہ عقبہ کے قریب مدینہ طیبہ سے حج کے لئے اانے والے حضرات کے سامنے اسلام پیش کیا تھا اور ان کو دین کی دعوت دی تھی اس وقت کل چھ مدنی صحابہ کرامؓ ایمان لے آئے تھے۔ آئندہ سال حج کے موقعہ پر اسی جگہ کچھ اور مدنی صحابہ کرامؓ حاضر خدمت ہو ئے اور مشرف باسلام ہو کر آپ کے دستِ مبارک پر اسلام اور اس کے بنیادی احکامات کی بیعت کر کے مدینہ طیبہ واپس ہوئے ہیں اس بیعت کا کس قدر تفصیلی ذکر صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے۔ (5) ان میں سے کچھ لوگوں کو آپ ﷺ نے الگ الگ قبیلوں کا نقیب یعنی دینی دعوت کے سلسلہ میں ذمہ دار بنایا تھا۔ انہیں نقباء میں سے حضرت عبادہ بن صامتؓ بھی تھے جن کو قبیلہ بنی عوف کا نقیب بنایا تھا۔ (6) صحیح بخاری کی اس روایت میں بھی جس کی طرف ابھی اشارہ کیا گیا ہے۔ آپؓ کے نقیب ہونے کا ذکر ہے۔ فضائل مدینہ طیبہ کے صحابہ کرامؓ میں اولین ایمان لانے والے صحابی ہیں لیلۃ العقبۃ الاولیٰ میں شریک ہونے والے اور ہجرت کے بعد غزوہ بدر سے لے کر تمام ہی غزوات میں شریک ہونے والے صحابی ہیں۔ بدری صحابہ کرامؓ میں بھی آپؓ کا بڑا بلند مقام ہے۔ چند صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ ہی میں پورا قرآن مجید حفظ کر لیا تھا ان میں حضرت عبادہ بن صامتؓ بھی ہیں۔ (1) حضرت یزید بن ابی سفیانؓ نے ملک شام سے حضرت عمرؓ کو خط لکھا کہ یہاں کی لوگوں کو قرآن پڑھانے اور دینی مسائل کی تعلیم دینے کے لئے کچھ معلمین بھیج دیجئے اور حضرت عمرؓ نے حضرت معاذؓ، حضرت عبادہؓ اور حضرت ابو درداءؓ کو بھیج دیا۔ حضرت عبادہؓ نے فلسطین میں قیام کیا اور وہاں کے لوگوں نے قرآن و سنت کی تعلیم دی۔ (2) وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلہ میں کسی کا لحاظ نہیں کرتے تھے۔ خواہ اس کا تعلق حاکم وقت ہی سے کیوں نہ ہو۔ جب حضرت معاویہؓ ملک شام کے حاکم ہوئے ہیں تو حضرت عبادہؓ وہیں قیام فرما تھے، انہوں نے حضرت معاویہؓ کی بہت سی باتوں پر نکیر کی ہے اور ان میں سے بعض باتوں کو حضرت معاوویہؓ نے تسلیم بھی کر لیا، ایک مرتبہ ایک خطیب نے خطبہ میں حضرت معاویہؓ کی موجودگی میں ان کی تعریف شروع کر دی، حضرت عبادہؓ نے زمین سے خاک اٹھائی اور خطیب کے منہ پر مار دی۔ حضرت معاویہؓ نے جب ان کے اس عمل پر گرفت کی تو انہوں نے فرمایا ہمیں اللہ کے رسول ﷺ نے یہی حکم دیا ہے کہ منہ پر تعریف کرنے والوں کے منہ پر خاک ڈال دیں۔ (3) غزوہ احد کے بعد مسلمانوں کی پریشاں حالی کو دیکھ مدینہ کے قرب و جوار کے یہودی قبائل نے مسلمانوں سے کئے ہوئے عہد و پیمان کو نظر انداز کر کے ان کے خلاف مختلف شکلوں میں اعلان جنگ کر دیا تھا۔ قبیلہ بنی قینقاع نے سب سے پہلے عہد شکنی کی تھی۔ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کا اس قبیلہ سے پرانا معاہدہ تھا وہ اس قبیلہ کے ساتھ رہا۔ عبداللہ بن ابی کی طرح حضرت عبادہ بن صامتؓ کا بھی ان لوگوں سے پرانا معاہدہ تھا لیکن انہوں نے اس معاہدہ کی بالکل پرواہ نہ کی اور اپنی برأت اور بےتعلقی کا اعلان کر دیا، اسی موقع پر آیت کریمہ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ نازل ہوئی جس میں مسلمانوں کو یہود و نصاریٰ سے دوستی رکھنے سے منع فرمایا گیا تھا۔ (4) وفات حضرت معاویہؓ کے زمانہ خلافت میں ۳۴ھ میں بعمر ۷۲ سال ملک شام میں انتقال ہوا۔ حضرت خباب بن الارت ؓ حضرت خبابؓ کا تعلق قبیلہ بنی تمیم سے ہے بچپن میں کسی نے ان کو پکڑ کر مکہ معظمہ میں لا کر بیچ دیا اور مکہ کی ایک عورت ام انمار نے خرید کر اپنا غلام بنا لیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی دعوت میں جن صحابہ کرامؓ نے بالکل ابتدائی زمانہ میں لبیک کہا ان میں حضرت خبابؓ بھی ہیں۔ انہوں نے اسلام لانے کی پاداش میں ہر طرح کے ظلم و ستم برداشت کئے۔ (1) زمانہ جاہلیت میں لوہاری کا کام کرتے تھے اسلام لانے کے بعد بھی وہی کام کرتے رہے۔ اسی سلسلہ میں عاص بن وائل پر کچھ قرض ہو گیا تھا جس کا مطالبہ کرنے کے لئے عاص کے پاس گئے اس نے کہا تمہارے پیسے جب ملے گے جب تم محمد (ﷺ) کی نبوت کا انکار کر دو، خبابؓ نے فرمایا میں رسول اللہ ﷺ کی نبوت کا انکار ہرگز نہیں کر سکتا خواہ تو مر کر دوبارہ زندہ ہو جائے۔ (2) عاص نے کہا کیا میں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جاؤں گا حضرت خبابؓ نے فرمایا بالکل، اس نے کہا کہ پھر اس وقت میرے پاس بہت سا مال و دولت اور آل اولاد ہو گی میں اسی وقت تمہارے قرض کی ادائیگی کروں گا۔ اس پر سورہ مریم کی کئی آیتیں أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا سے لے کر وَنَرِثُهُ مَا يَقُولُ وَيَأْتِينَا فَرْدًا تک آیات نمبر ۷۷، نمبر ۷۹، نمبر ۸۰ نازل ہوئیں۔ (3) جن میں عاص کی اس بےہودہ قول پر سخت نکیر فرمائی گئی ہے، ان آیات کا ترجمہ اس طرح ہے۔ "بھلا آپ نے دیکھا اس شخص کو جو ہماری آیتوں (قدرت کی نشانیوں اور رسول اللہ ﷺ کی نبوت کی دلیلوں کا منکر ہوا اور اس نے کہا مجھ کو (دوبارہ زندہ ہونے کی صورت میں) مال اور اولاد ضرور ملے گا کیا اس نے (آئندہ کی) غیب کی باتوں کو دیکھ لیا ہے یا اللہ سے کوئی عہد و پیمان لے رکھا ہے۔ ہرگز نہیں (یعنی مال اولاد کچھ نہیں ملے گا۔)بلکہ ہم اس کی اس بات کو جو وہ کہہ رہا ہے لکھ رکھیں گے اور اس کے لئے عذاب کو طویل تر کرتے رہیں گے۔ اور جس منال و اولاد کا وہ کر کر رہا ہے وہ سب بھی ہمارا ہی ہو گا (یعنی اس کو وہاں کچھ نہ ملے گا) اور وہ ہمارے حضور میں تنہا حاضر ہو گا۔ فضائل جیسا کہ ابھی گزرا وہ اولین اسلام لانے والوں میں ہیں اور اسلام کے لئے ہر طرح کی قربانیاں انہوں نے دی ہیں، چونکہ وہ غلام تھے اس لئے ان کے لئے ہر طرح کی ایذاء رسانیاں جائز تھیں اور کوئی بھی ان کا حمایتی نہ تھا۔ ایک بار مشرکین مکہ نے آگ جلائی اور اس کے دہکتے ہوئے انگاروں پر حضرت خبابؓ کو لٹا دیا ان کی کمر کی چربی سے جب تک انگارے بجھ نہ گئے ان کو اٹھنے نہ دیا۔ عرصہ کے بعد حضرت عمر فاروقؓ نے ان کی کمر دیکھ کر فرمایا تھا، میں نے آج تک ایسی کمر نہیں دیکھی۔ جلنے کے نشانات کی وجہ سے ان کی کمر پر برص کی طرح سفید داغ ہو گئے تھے۔ ان تکلیفوں سے تنگ آ کر ایک دن انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے شکوہ شکایت اور دعا کی درخواست کی آپ نے فرمایا ابھی جلدی نہ کرو پہلے لوگوں نے تو دین کے سلسلہ میں بہت سخت آزمائشیں برداشت کی تھیں۔ (اور آپ ﷺ نے ان آزمائشوں کا ذکر بھی کیا) اور پھر فرمایا واللہ یہ دین ضرور غالب ہو کر رہے گا۔ (1) حضرت علیؓ نے ان کے بارے میں فرمایا تھا۔ "رحم الله خبابا لقد اسلم راغبا وهاجر طائعا وعاش مجاهدا وابتلى فى جسمه حولا ولن يضيع الله اجر من احسن عملا"(2) اللہ خبابؓ پر رحم فرمائے وہ اپنی رضا و رغبت سے ایمان لائے اور انہوں نے خود اپنی خوشی سے ہجرت کی، مجاہدانہ زندگی بسر کی، ہر طرح کی جسمانی تکالیف برداشت کیں اور اللہ اعمال صالحہ کرنے والوں کا اجر ضائع نہیںفرمائے گا وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ بدر اور اس کے بعد جملہ غزوات میں شریک رہے ہیں۔ (3) وفات ۳۷ھ کوفہ میں وفات پائی۔ (۴)ؓ وارضاہ۔ حضرت سعد بن معاذ ؓ حضرت سعد بن معاذ ؓ کا تعلق مدینہ کے مشہور خاندان قبیلہ اوس کی ایک شاخ قبیلہ بنی عبدالاشہل سے ہے، وہ رسول اللہ ﷺ کے مدینہ طیبہ تشریف لانے سے پہلے ہی حضرت مصعب بن عمیرؓ کے ہاتھ پر ایمان لا چکے تھے جنہیں رسول اللہ ﷺ نے اہل مدینہ کو دین کی دعوت دینے کے لئے ہجرت سے پہلے ہی مدینہ طیبہ بھیج دیا تھا، ایمان لانے کے بعد انہوں نے اپنے خاندابنی عبدالاشہل کے لوگوں کو خطاب کر کے فرمایا اے میرے قبیلہ کے لوگو! تم لوگوں کے نزدیک میرا مقام کیا ہے؟ سب نے کہا آپ ہمارے سردار ہیں، اور ہم سب میں بلند مقام ہیں، یہ جواب سن کر حضرت سعدؓ نے فرمایا میرے لئے تم لوگوں سے بات کرنا حرام ہے جب تک کہ تم سب مرد و عورت اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان نہ لے آؤ، قبیلہ کے تمام مردوں و عورتوں نے ان کی دعوت پر لبیک کہا اور سب ہی لوگ ان کے کہنے پر مسلمان ہو گئے۔ پورے قبیلہ میں ایک بھی شخص ایسا نہ رہا جو دولت ایمانی سے محروم رہا ہو ..... (5) وہ قبیلہ بنی عبدالاشہل ...... (جو اوس کی شاخ ہے اور جس سے ان کا تعلق تھا۔) کے سردار تھے ہی اصل قبیلہ اوس جو انصار مدینہ کا ایک بہت بڑا قبیلہ تھا اس کے بھی سردار تھے، انصار میں کم ہی لوگ ان کے ہم پلہ سمجھے جاتے تھے، زمانہ جاہلیت میں بھی اہل مدینہ میں ان کو یہ بلند مقام حاصل تھا اور مدینہ طیبہ میں اسلام آ جانے کے بعد بھی ان کا یہ مقام اہل مدینہ میں مسلم رہا، خود رسول اللہ ﷺ نے ان کو اہل مدینہ کے سردار کے لقب سے یاد فرمایا ہے۔ (6) رسول اللہ ﷺ کے مدینہ طیبہ تشریف لے آنے کے بعد آپ مسلسل دین ک دعوت اور رسول اللہ ﷺ کی نصرت و حمایت میں مشغول رہے، غزوہ بدر سے ہی غزوات میں شرکت شروع کر دی تھی، غزوہ خندق میں ایک مشرک کے تیر سے زخمی ہوئے، تیر ہاتھ کی ایک ایسی نس میں لگا جس کے کسی طرح بھی خون نہ رکتا تھا، رسول اللہ ﷺ نے کئی بار اس زخم پر گرم لوہے سے داغ لگوائے، اس وقت خون کو روکنے کے لئے یہ بھی ایک طریق علاج تھا، کئی بار کے بعد خون کا بہنا بند ہوا جب ان کا خون کسی طرح نہ رکتا تھا تو انہوں نے دعا کی تھی اے اللہ تو جانتا ہے کہ مجھے کوئی چیز بھی تیرے راستہ میں جہاد کرنے اور ان لوگوں سے جنگ اور قتال کرنے سے زیادہ محبوب نہیں ہے، جنہوں نے تیرے نبی ﷺ کی تکذیب کی ہے اور ان کو ان کے گھر (مکہ) سے نکالا ہے، الٰہی اگر قریش سے ابھی کوئی جنگ ہونا باقی ہو تو مجھے ابھی مزید زندگی عطا فرما تا کہ ان سے تیرے راستہ میں جہاد کروں، پروردگار، لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ بظاہر اب قریش سے مزید کوئی جنگ نہیں ہونی، اگر ایسا ہی ہے تو مجھے اسی زخم میں شہادت عطا فرما دے۔ (1) بعض روایات میں یہ بھی اضافہ ہے کہ انہوں نے یہ بھی دعا کی تھی کہ اے اللہ میرے موت سے پہلے بنو قریظہ کو ان کی دھوکہ دہی اور عہد شکنی کی سزا دے کر میری آنکھیں ٹھنڈی کر دے، (2) بنو قریظہ کا قصہ یہ تھا کہ یہ مدینہ کے قریب ایک یہودی قبیلہ تھا، ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے عہد و پیمان کیا تھا کہ ہم نہ آپ لوگوں سے جنگ کریں گے نہ آپ کے دشمنوں کی مدد کریں گے، لیکن دوسرے یہودیوں کی طرح ان لوگوں نے بھی عہد شکنی کی اور مشرکین مکہ اور عرب کے بعض دیگر قبائل کو مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے پر آمادہ کیا انہیں کی سازشوں کے نتیجہ میں غزوہ خندق پیش آیا، اس لئے جیسے ہی رسول اللہ ﷺ غزوہ خندق سے فارغ ہو کر گھر تشریف لائے ہیں، فوراً ہی اللہ کا حکم آ گیا کہ بنی قریظہ پر حملہ کرنے کے لئے چلا جائے آپ صحابہ کرام کی ایک جمیعت لے کر وہاں تشریف لے گئے اور تقریباً ایک ماہ ان کے قلعہ کا محاصرہ کیا ان لوگوں نے اپنے اس مسئلہ میں حضور ﷺ ہی کو حکم بنایا چاہا لیکن آپ ﷺ نے ان کی رضامندی سے حضرت سعد بن معاذ ؓ کو حکم بنا دیا، حضرت سعد بن معاذؓ اور ان کے قبیلہ اوس سے زمانہ جاہلیت میں بنو قریظہ سے حلف یعنی نصرت و حمایت کا معاہدہ تھا لیکن حضرت سعدؓ کو اپنے ان حلیفوں کی عہد شکنی اور رسول اللہ ﷺ سے بغاوت انتہائی ناگوار گذری تھی اس لئے حضرت سعدؓ نے ان لوگوں کے مقاتلین کے قتل کئے جانے اور باقی لوگوں کو غلام بنانے کا فیصلہ فرمایا، حالانکہ ان لوگوں نے بار بار اپنے پرانے عہد و معاہدہ کی یاد دہانی کرائی اور نرم فیصلہ کرانے کی کوششیں کیں بلکہ بعض لوگوں نے تو ان کو اپنے حلیفوں کی حفاظت و حمایت نہ کر سکنے پر بہت عار بھی دلائی، لیکن حضرت معاذؓ نے یہی فیصلہ برقرار رکھا، رسول اللہ ﷺ نے ان کے فیصلے کی تصویب فرمائی۔ (3) حضرت سعدؓ نے زخمی ہونے کے بعد جو دعا کی تھی وہ مقبول ہوئی اور اللہ نے انہیں کے ذریعہ ان کی زندگی میں ہی بنو قریظہ کو کیفر کردار تک پہنچایا اور جیسے ہی وہ بنو قریظہ کے قضیہ سے فارغ ہوئے، زخم کا منہ کھل گیا اور وہی وجہ شہادت ہوا۔ فضائل حضرت سعد بن معاذ ؓ نہایت حسین و جمیل اور طویل القامت شخص تھے ظاہری حسن و وجاہت کے ساتھ اللہ نے ان کو دینی و دنیوی عزت و وقار بھی عطا فرمایا تھا اہل مدینہ میں ان کا بہت بلند مقام تھا ان کے اسلام لانے سے مدینہ میں اسلام کو بڑی تقویت ملی، ان کا پورا فیصلہ بنی عبدالاشہل ان کے اسلام لانے پر مسلمان ہو گیا تھا رسول اللہ ﷺ بھی ان کے مقام کا اعتراف و لحاظ فرماتے تھے۔ جب غزوہ خندق میں وہ زخمی ہوئے ہیں تو آپ نے ان کے لئے مسجد نبوی کے صحن میں ہی خیمہ لگوا دیا تھا تا کہ ان کی تیمارداری اور علاج و معالجہ آپ کی نگرانی میں ہوتا رہے اور وہ ہمہ وقت آپ ﷺ کی نظر میں رہیں پھر جب آپ ﷺ نے ان کو بنو قریظہ کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لئے قبیلہ بنو قریظہ بلوایا ہے اور وہ سواری پر سوار ہو کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا قوموا الى سيدكم اپنے سردار کے لئے کھڑے ہو جاؤ، بنو قریظہ کے بارے میں جو فیصلہ انہوں نے فرمایا تھا اس فیصلہ کو آپ ﷺ نے اللہ کا فیصلہ قرار دیا تھا اور اسی کے مطابق عمل بھی کرایا تھا۔ جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ ﷺ نے اللہ کے حضور عرض کیا۔ اللهم ان سعدا قد جاهد فى سبيلك وصدق رسولك وقض الذى عليه فتقبل روحه بخير ما تقبلت به روحا الٰہی سعد نے آپ کے راستہ میں جہاد کیا، آپ کے رسول ﷺ کی تصدیق کی اور اپنی تمام دینی ذمہ داریوں کو پورا کیا، میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ آپ ان کی روح کا بہتر سے بہتر استقبال فرمائیں حضرت سعد ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی یہ بات سن کر آنکھیں کھول دیں اور عرض کیا السلام عليك يا رسول الله میں آپ کی رسالت کی گواہی دیتا ہوں وفات ہو جانے پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جزاك الله خيرا فقد انجزت ما وعدته ولينجزنك ما وعدك۔ اللہ تم کو بہترین جزا دے، تم نے جو وعدے اللہ سے کئے سب پورے کر دکھائے اب یقیناً اللہ بھی تم سے کئے ہوئے اپنے وعدے پورے فرمائے گا۔ آپ نے ان کی وفات کے بعد فرمایا کہ سعد، اللہ کا نیک بندہ ہے جس کی آمد کی خوشی پر عرشِ الہٰی جھوم اٹھا، آسمان کے دروازے کھول دئیے گئے اور ستر ہزار فرشتے آسمان سے ان کے جنازے میں شرکت کے لئے اتر آئے جو کبھی پہلے زمین میں نہیں اترے تھے۔ صحابہ کرام کو ان کی وفات پر اتنا صدمہ ہوا تھا کہ ایسا صدمہ شاذ و نادر ہی کسی کی وفات پر ہوا تھا، حضرت ابو بکر و عمر جیسے صحابہ کرامؓ بھی رو رہے تھے رسول اللہ ﷺ نے ضبط غم کے لئے اپنی داڑھی پکڑ رکھی تھی۔ (1)رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں دومۃ الجندل کے امیر نے ایک ریشمی جبہ بھیجا تھا، صحابہ کرامؓ نے ایسا قیمتی اور شاندار جبہ کبھی نہ دیکھا تھا، صحابہ اس کو بار بار چھوتے اور اس کی نرمی و نزاکت پر تعجب کا اظہار کرتے تھے، آپ نے صحابہ کرامؓ کے اس عمل کو دیکھ کر فرمایا کیا تم کو یہ بہت اچھا معلوم ہو رہا ہے، جنت میں سعد بن معاذؓ کے رومال اس سے بہت زیادہ بہتر اور نرم و نازک ہیں۔ (2) ان کی والدہ حضرت کبشہ ؓ بھی صحابیہ ہیں، بیٹے کی وفات پر بہت رنجیدہ تھیں، بڑا درد بھرا مرثیہ کہا ہے، رسول اللہ ﷺ نے ان کا مرثیہ سن کر ان کو صبر کی تلقین فرمائی اور فرمایا واللہ وہ دین میں بہت پختہ اور اللہ کے کام میں بہت قوی تھے۔ وفات غزوہ احزاب یعنی غزوہ خندق میں زخمی ہونے کی چند دن کے بعد ہی وفات ہو گئی اور وہی زخم شہادت کا سبب بنا تھا، غزوہ خندق کا واقعہ ۵ھ کا ہے وفات کے وقت ان کی عمر ۳۷ سال تھی۔ (1)
Top