Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (702 - 1228)
Select Hadith
702
703
704
705
706
707
708
709
710
711
712
713
714
715
716
717
718
719
720
721
722
723
724
725
726
727
728
729
730
731
732
733
734
735
736
737
738
739
740
741
742
743
744
745
746
747
748
749
750
751
752
753
754
755
756
757
758
759
760
761
762
763
764
765
766
767
768
769
770
771
772
773
774
775
776
777
778
779
780
781
782
783
784
785
786
787
788
789
790
791
792
793
794
795
796
797
798
799
800
801
802
803
804
805
806
807
808
809
810
811
812
813
814
815
816
817
818
819
820
821
822
823
824
825
826
827
828
829
830
831
832
833
834
835
836
837
838
839
840
841
842
843
844
845
846
847
848
849
850
851
852
853
854
855
856
857
858
859
860
861
862
863
864
865
866
867
868
869
870
871
872
873
874
875
876
877
878
879
880
881
882
883
884
885
886
887
888
889
890
891
892
893
894
895
896
897
898
899
900
901
902
903
904
905
906
907
908
909
910
911
912
913
914
915
916
917
918
919
920
921
922
923
924
925
926
927
928
929
930
931
932
933
934
935
936
937
938
939
940
941
942
943
944
945
946
947
948
949
950
951
952
953
954
955
956
957
958
959
960
961
962
963
964
965
966
967
968
969
970
971
972
973
974
975
976
977
978
979
980
981
982
983
984
985
986
987
988
989
990
991
992
993
994
995
996
997
998
999
1000
1001
1002
1003
1004
1005
1006
1007
1008
1009
1010
1011
1012
1013
1014
1015
1016
1017
1018
1019
1020
1021
1022
1023
1024
1025
1026
1027
1028
1029
1030
1031
1032
1033
1034
1035
1036
1037
1038
1039
1040
1041
1042
1043
1044
1045
1046
1047
1048
1049
1050
1051
1052
1053
1054
1055
1056
1057
1058
1059
1060
1061
1062
1063
1064
1065
1066
1067
1068
1069
1070
1071
1072
1073
1074
1075
1076
1077
1078
1079
1080
1081
1082
1083
1084
1085
1086
1087
1088
1089
1090
1091
1092
1093
1094
1095
1096
1097
1098
1099
1100
1101
1102
1103
1104
1105
1106
1107
1108
1109
1110
1111
1112
1113
1114
1115
1116
1117
1118
1119
1120
1121
1122
1123
1124
1125
1126
1127
1128
1129
1130
1131
1132
1133
1134
1135
1136
1137
1138
1139
1140
1141
1142
1143
1144
1145
1146
1147
1148
1149
1150
1151
1152
1153
1154
1155
1156
1157
1158
1159
1160
1161
1162
1163
1164
1165
1166
1167
1168
1169
1170
1171
1172
1173
1174
1175
1176
1177
1178
1179
1180
1181
1182
1183
1184
1185
1186
1187
1188
1189
1190
1191
1192
1193
1194
1195
1196
1197
1198
1199
1200
1201
1202
1203
1204
1205
1206
1207
1208
1209
1210
1211
1212
1213
1214
1215
1216
1217
1218
1219
1220
1221
1222
1223
1224
1225
1226
1227
1228
سنن ابنِ ماجہ - - حدیث نمبر 3111
نکاح کا بیان
نکاح کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا لیکن اس لفظ کا اطلاق مجامعت کرنے اور عقد کے معنی پر بھی ہوتا ہے کیونکہ مجامعت اور عقد دونوں ہی میں جمع ہونا اور ملنا پایا جاتا ہے لہذا اصول فقہ میں نکاح کے یہی معنی یعنی جمع ہونا بمعنی مجامعت کرنا مراد لینا چاہئے بشرطیکہ ایسا کوئی قرینہ نہ ہو جو اس معنی کے خلاف دلالت کرتا ہو۔ علماء فقہ کی اصطلاح میں نکاح اس خاص عقد و معاہدہ کو کہتے ہیں جو مرد و عورت کے درمیان ہوتا ہے اور جس سے دونوں کے درمیان زوجیت کا تعلق پیدا ہوجاتا ہے نکاح کی اہمیت نکاح یعنی شادی صرف دو افراد کا ایک سماجی بندھن، ایک شخصی ضرورت، ایک طبعی خواہش اور صرف ایک ذاتی معاملہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ معاشرہ انسانی کے وجود وبقاء کا ایک بنیادی ستون بھی ہے اور شرعی نقطہ نظر سے ایک خاص اہمیت و فضیلت کا حامل بھی ہے۔ نکاح کی اہمیت اور اس کی بنیادی ضرورت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے وقت سے شریعت محمدی ﷺ تک کوئی ایسی شریعت نہیں گزری ہے جو نکاح سے خالی رہی ہو اسی لئے علماء لکھتے ہیں کہ ایسی کوئی عبادت نہیں ہے جو حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر اب تک مشروع ہو اور جنت میں بھی باقی رہے سوائے نکاح اور ایمان کے چناچہ ہر شریعت میں مرد و عورت کا اجتماع ایک خاص معاہدہ کے تحت مشروع رہا ہے اور بغیر اس معاہدہ کے مرد و عورت کا باہمی اجتماع کسی بھی شریعت و مذہب نے جائز قرار نہیں دیا ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ اس معاہدہ کی صورتیں مختلف رہی ہیں اور اس کے شرائط و احکام میں تغیر و تبدل ہوتا رہا ہے۔ چناچہ اس بارے میں اسلام نے جو شرائط مقرر کی ہیں جو احکام نافذ کئے ہیں اور جو قواعد و ضوابط وضع کئے ہیں اس باب سے ان کی ابتداء ہو رہی ہے۔ نکاح کے فوائد وآفات نکاح کا جہاں سب سے بڑا عمومی فائدہ نسل انسانی کا بقاء اور باہم توالد وتناسل کا جاری رہنا ہے وہیں اس میں کچھ مخصوص فائدے اور بھی ہیں جن کو پانچ نمبروں میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے۔ -1 نکاح کرلینے سے ہیجان کم ہوجاتا ہے یہ جنسی ہیجان انسان کی اخلاقی زندگی کا ایک ہلاکت خیز مرحلہ ہوتا ہے جو اپنے سکون کی خاطر مذہب و اخلاق ہی کی نہیں شرافت و انسانیت کی بھی ساری پابندیاں توڑ ڈالنے سے گریز نہیں کرتا، مگر جب اس کو جائز ذرائع سے سکون مل جاتا ہے تو پھر یہ پابند اعتدال ہوجاتا ہے اور ظاہر ہے کہ جائز ذریعہ صرف نکاح ہی ہوسکتا ہے۔ -2 نکاح کرنے سے اپنا گھر بستا ہے خانہ داری کا آرام ملتا ہے گھریلو زندگی میں سکون و اطمینان کی دولت نصیب ہوتی ہے اور گھریلو زندگی کے اس اطمینان و سکون کے ذریعہ حیات انسانی کو فکر و عمل کے ہر موڑ پر سہارا ملتا ہے۔ -3 نکاح کے ذریعہ سے کنبہ بڑھتا ہے جس کی وجہ سے انسان اپنے آپ کو مضبوط و زبردست محسوس کرتا ہے اور معاشرہ میں اپنے حقوق و مفادات کے تحفظ کے لئے اپنا رعب داب قائم رکھتا ہے۔ -4 نکاح کرنے سے نفس مجاہدہ کا عادی ہوتا ہے کیونکہ گھر بار اور اہل و عیال کی خبر گیری و نگہداشت اور ان کی پرورش و پرداخت کے سلسلہ میں جدوجہد کرنا پڑتی ہے اس مسلسل جدوجہد کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان بےعملی اور لاپرواہی کی زندگی سے دور رہتا ہے جو اس کے لئے دنیاوی طور پر بھی نفع بخش ہے اور اس کیوجہ سے وہ دینی زندگی یعنی عبادات و طاعات میں بھی چاق و چوبند رہتا ہے۔ -5 نکاح ہی کے ذریعہ صالح و نیک بخت اولاد پیدا ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی شخص کی زندگی کا سب سے گراں مایہ سرمایہ اس کی صالح اور نیک اولاد ہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ نہ صرف دنیا میں سکون و اطمینان اور عزت ونیک نامی کی دولت حاصل کرتا ہے بلکہ اخروی طور پر بھی فلاح وسعادت کا حصہ دار بنتا ہے۔ یہ تو نکاح کے فائدے تھے لیکن کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو نکاح کی وجہ سے بعض لوگوں کے لئے نقصان و تکلیف کا باعث بن جاتی ہیں اور جنہیں نکاح کی آفات کہا جاتا ہے چناچہ ان کو بھی چھ نمبروں میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے۔ -1 طلب حلال سے عاجز ہونا یعنی نکاح کرنے کی وجہ سے چونکہ گھر بار کی ضروریات لاحق ہوجاتی ہیں اور طرح طرح کے فکر دامن گیر رہتے ہیں اس لئے عام طور پر طلب حلال میں وہ ذوق باقی نہیں رہتا جو ایک مجرد و تنہا زندگی میں رہتا ہے۔ -2 حرام امور میں زیادتی ہونا۔ یعنی جب بیوی کے آجانے اور بال بچوں کے ہوجانے کی وجہ سے ضروریات زندگی بڑھ جاتی ہیں تو بسا اوقات اپنی زندگی کا وجود معیار برقرار رکھنے کے لئے حرام امور کے ارتکاب تک سے گریز نہیں کیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ ذہن وعمل سے حلال و حرام کی تمیز بھی اٹھ جاتی ہے اور بلا جھجک حرام چیزوں کو اختیار کرلیا جاتا ہے۔ -3 عورتوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہونا۔ اسلام نے عورتوں کو جو بلند وبالا حقوق عطا کئے ہیں ان میں بیوی کے ساتھ اچھے سلوک اور حسن معاشرت کا ایک خاص درجہ ہے لیکن ایسے بہت کم لوگ ہیں جو بیوی کے حقوق کا لحاظ کرتے ہوں بلکہ بدقسمتی سے چونکہ بیوی کو زیردست سمجھ لیا جاتا ہے اس لئے عورتوں کے حقوق کی پامالی اور ان کے ساتھ برے سلوک و برتاؤ بھی ایک ذاتی معاملہ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا، حالانکہ یہ چیز ایک انسانی اور معاشرتی بد اخلاقی ہی نہیں ہے بلکہ شرعی طور پر بھی بڑے گناہ کی حامل ہے اور اس سے دین و دنیا دونوں کا نقصان ہوتا ہے۔ -4 عورتوں کی بد مزاجی پر صبر نہ کرنا عام طور پر شوہر چونکہ اپنے آپ کو بیوی سے برتر سمجھتا ہے اس لئے اگر بیوی کی طرف سے ذرا سی بھی بدمزاجی ہوئی تو ناقابل برداشت ہوجاتی ہے اور صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے فورا چھوٹ جاتا ہے۔ -5 عورت کی ذات سے تکلیف اٹھانا بعض عورتیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنی بدمزاجی و بداخلاقی کی وجہ سے اپنے شوہروں کے لئے تکلیف و پریشانی کا ایک مستقل سبب بن جاتی ہیں اس کی وجہ سے گھریلو ماحول غیر خوشگوار اور زندگی غیر مطمئن و اضطراب انگیز بن جاتی ہے۔ -6 بیوی بچوں کی وجہ سے حقوق اللہ کی ادائیگی سے باز رہنا یعنی ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں جو اپنی گھریلو زندگی کے استحکام اور بیوی بچوں کے ساتھ حسن معاشرت کے ساتھ ساتھ اپنی دینی زندگی کو پوری طرح برقرار رکھتے ہوں جب کہ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ بیوی بچوں اور گھر بار کے ہنگاموں اور مصروفیتوں میں پڑ کر دینی زندگی مضمحل وبے عمل ہوجاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ تو عبادات و طاعات کا خیال رہتا ہے نہ حقوق اللہ کی ادائیگی پورے طور پر ہو پاتی ہے۔ نکاح کے ان فوائد وآفات کو سامنے رکھ کر اب یہ سمجھئے کہ اگر یہ دونوں مقابل ہوں یعنی فوائد وآفات برابر، برابر ہوں، تو جس چیز سے دین کی باتوں میں زیادتی ہوتی ہو اسے ترجیح دی جائے مثلا ایک طرف تو نکاح کا یہ فائدہ ہو کہ اس کی وجہ سے جنسی ہیجان کم ہوتا ہے اور دوسری طرف نکاح کرنے سے یہ دینی نقصان سامنے ہو کہ عورت کی بدمزاجی پر صبر نہیں ہو سکے گا تو اس صورت میں نکاح کرنے ہی کو ترجیح دی جائے کیونکہ اگر نکاح نہیں کرے گا تو زنا میں مبتلا ہوجائے گا اور ظاہر ہے کہ یہ چیز عورت کی بد مزاجی پر صبر نہ کرنے سے کہیں زیادہ دینی نقصان کا باعث ہے۔ نکاح کے احکام -1 حنفی مسلک کے مطابق نکاح کرنا اس صورت میں فرض ہوتا ہے جب کہ جنسی ہیجان اس درجہ غالب ہو کہ نکاح نہ کرنے کی صورت میں زنا میں مبتلا ہوجانے کا یقین ہو اور بیوی کے مہر پر اور اس کے نفقہ پر قدرت حاصل نہ ہو اور یہ خوف نہ ہو کہ بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی بجائے اس کے ساتھ ظلم و زیادتی کا برتاؤ ہوگا۔ -2 نکاح کرنا اس صورت میں واجب ہوجاتا ہے جب کہ جنسی ہیجان کا غلبہ ہو مگر اس درجہ کا غلبہ نہ ہو کہ زنا میں مبتلا ہوجانے کا یقین ہو، نیز مہر و نفقہ کی ادائیگی کی قدرت رکھتا ہو اور بیوی پر ظلم کرنے کا خوف نہ ہو۔ اگر کسی شخص پر جنسی ہیجان کا غلبہ تو ہو مگر وہ مہر اور بیوی کے اخراجات کی ادائیگی پر قادر نہ ہو تو ایسی صورت میں اگر وہ نکاح نہ کرے تو اس پر گناہ نہیں ہوگا جب کہ مہر اور نفقہ پر قادر شخص جنسی ہیجان کی صورت میں نکاح نہ کرنے سے گناہ گار ہوتا ہے۔ -3 اعتدال کی حالت میں نکاح کرنا سنت مؤ کدہ ہے اعتدال کی حالت سے مراد یہ ہے کہ جنسی ہیجان کا غلبہ تو نہ ہو لیکن بیوی کے ساتھ مباشرت و مجامعت کی قدرت رکھتا ہو اور مہر و نفقہ کی ادائیگی پر بھی قادر ہو۔ لہذا اس صورت میں نکاح نہ کرنیوالا گنہگار ہوتا ہے جب کہ زنا سے بچنے اور افزائش نسل کی نیت کے ساتھ نکاح کرنیوالا اجر وثواب سے نوازا جاتا ہے۔ -4 نکاح کرنا اس صورت میں مکروہ ہے جب کہ بیوی پر ظلم کرنے کا خوف ہو یعنی اگر کسی شخص کو اس بات کا خوف ہو کہ میرا مزاج چونکہ بہت برا اور سخت ہے اس لئے میں بیوی پر ظلم و زیادتی کروں گا تو ایسی صورت میں نکاح کرنا مکروہ ہے -5 نکاح کرنا اس صورت میں حرام ہے جبکہ بیوی پر ظلم کرنے کا یقین ہو یعنی اگر کسی شخص کو یہ یقین ہو کہ میں اپنے مزاج کی سختی وتندی کی وجہ سے بیوی کے ساتھ اچھا سلوک قطعا نہیں کرسکتا بلکہ اس پر میری طرف سے ظلم ہونا بالکل یقینی چیز ہے تو ایسی صورت میں نکاح کرنا اس کے لئے حرام ہوگا۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ شریعت نے نکاح کے بارے میں مختلف حالات کی رعایت رکھی ہے بعض صورتوں میں تو نکاح کرنا فرض ہوجاتا ہے بعض میں واجب اور بعض میں سنت مؤ کدہ ہوتا ہے جب کہ بعض صورتوں میں نکاح کرنا مکروہ بھی ہوتا ہے اور بعض میں تو حرام ہوجاتا ہے لہذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ اسی صورت کے مطابق عمل کرے جو اس کی حالت کے مطابق ہو۔ نکاح کے مستحبات جب کوئی شخص نکاح کرنا چاہے خوہ مرد ہو یا عورت تو چاہئے کہ نکاح کا پیغام دینے سے پہلے ایک دوسرے کے حالات کی اور عادات واطوار کی خوب اچھی طرح جستجو کرلی جائے تاکہ ایسا نہ ہو کہ بعد میں کوئی ایسی چیز معلوم ہو جو طبیعت ومزاج کے خلاف ہو نیکی وجہ سے زوجین کے درمیان ناچاقی وکشیدگی کا باعث بن جائے۔ یہ مستحب ہے کہ عمر، عزت، حسب اور مال میں بیوی خاوند سے کم ہو اور اخلاق و عادات خوش سلیقی وآداب حسن و جمال اور تقوی میں خاوند سے زیادہ ہو اور مرد کے لئے یہ بھی مسنون ہے کہ وہ جس عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے اس کو نکاح سے پہلے دیکھ لے بشرطیکہ یہ یقین ہو کہ میں اگر اس کو پیغام دوں گا تو منظور ہوجائے گا۔ مستحب ہے کہ نکاح کا اعلان کیا جائے گا اور نکاح کی مجلس اعلانیہ طور پر منعقد کی جائے جس میں دونوں طرف سے اعزہ و احباب نیز بعض علماء وصلحا بھی شریک۔ اسی طرح یہ بھی مستحب ہے کہ نکاح پڑھانے والا نیک بخت و صالح ہو اور گواہ عادل وپرہیزگارہوں۔ ایجاب و قبول اور ان کے صحیح ہونے کی شرائط نکاح ایجاب و قبول کے ذریعہ منعقد ہوتا ہے اور ایجاب و قبول دونوں ماضی کے لفظ کے ساتھ ہونے چاہئیں (یعنی ایسا لفظ استعمال کیا جائے جس سے یہ بات سمجھی جائے کہ نکاح ہوچکا ہے) جیسے عورت یوں کہے کہ میں نے اپنے آپ کو تمہاری زوجیت میں دیا، یا عورت کا ولی، مرد سے یہ کہے کہ میں نے فلاں عورت کا جس کا نام یہ ہے، تمہارے ساتھ نکاح کیا اور اس کے جواب میں مرد یہ کہے کہ میں نے منظور کیا یا ایجاب میں سے کوئی ایک ماضی کے لفظ کے ساتھ ہو جیسے عورت یہ کہے کہ مجھ سے نکاح کرلو یا عورت کا ولی، مرد سے یہ کہے کہ فلاں عورت سے جس کا نام یہ ہے نکاح کرلو اور اس کے جواب میں مرد یہ کہے کہ میں نے نکاح کرلیا۔ یا اس کا برعکس ہو، جیسے مرد یہ کہے کہ میں نے تمہارے ساتھ اپنا نکاح کرلیا اور اس کے جواب میں عورت یہ کہے کہ میں منظور کرتی ہوں اور اگر مرد، عورت سے یوں کہے کہ کیا تم نے اپنے آپ کو میری زوجیت میں دیا؟ یا کہے کہ کیا تم نے مجھے قبول کیا اور اس کے جواب میں عورت ( ہاں میں نے دیا یا ہاں میں نے قبول کیا کہنے کی بجائے) صرف یہ کہے کہ ہاں دیا۔ یا ہاں قبول کیا ( یعنی لفظ میں نہ کہے) تو اس صورت میں بھی نکاح ہوجاتا ہے۔ البتہ گواہوں کے سامنے صرف یہ کہنے سے کہ ہم بیوی خاوند ہیں، نکاح نہیں ہوتا۔ جس طرح ایجاب و قبول میں ماضی کا لفظ استعمال کرنا ضروری ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ ایجاب و قبول میں خاص کر نکاح اور تزوجی کا لفظ استعمال کیا جائے مثلا یوں کہا جائے کہ میں نے تمہارے ساتھ نکاح کیا یا تمہارے ساتھ تزویج کیا۔ یا نکاح وتزویج کے ہم معنی کوئی دوسرا لفظ استعمال کیا جائے مثلا یوں کہا جائے کہ میں نے تمہارے ساتھ نکاح کیا یا تہارے ساتھ تزویج کیا یا نکاح وتزویج کے ہم معنی کوئی دوسرا لفظ استعمال کیا جائے جو نکاح کا مطلب صراحۃ ادا کرتا ہو جیسے مرد یوں کہے کہ میں نے تمہیں اپنی بیوی بنا لیا یا یوں کہے کہ میں تمہارا شوہر ہوگیا یا یوں کہے کہ تم میری ہوگئیں۔ اور نکاح وتزویج یا اس کا ہم معنی لفظ صراحۃً استعمال نہ کیا جائے بلکہ کوئی ایسا لفظ استعمال کیا جائے جس سے کنیۃً نکاح کا مفہوم سمجھا جاتا ہو تو یہ بھی جائز ہے بشرطیکہ وہ لفظ ایسا ہو جس کے ذریعہ سے کسی ذات کامل کی ملکیت فی الحال حاصل کی جاتی ہو جیسے ہبہ کا لفظ یا صدقہ کا لفظ یا تملیک کا لفظ یا بیع وشراء کا لفظ جیسے بیوی یوں کہے کہ میں نے اپنی زوجیت تمہیں ہبہ کردی، یا میں نے اپنی ذات تمہیں بطور صدقہ دیدی یا میں نے تمہیں اپنی ذات کا مالک بنادیا یا یوں کہے کہ میں نے تمہیں اس قدر روپیہ کے عوض خرید لیا اور ان سب کے جواب میں مرد یہ کہے کہ میں نے قبول کیا، لیکن اس کے صحیح ہونے کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ متکلم نے اس لفظ سے نکاح مراد لیا ہو اور کوئی قرینہ اس پر دلالت کرتا ہو اور اگر کوئی قرینہ نہ ہو تو قبول کرنیوالے نے متکلم کی مراد کی تصدیق کردی ہو نیز گواہوں نے بھی سمجھ لیا ہو کہ اس لفظ سے مراد نکاح ہے خواہ انہوں نے کسی قرینہ سے سمجھا ہو یا بتادینے سے سمجھا ہو۔ ایجاب و قبول کے وقت عاقدین ( دولہا دولہن) میں سے ہر ایک کے لئے دوسرے کا کلام سننا ضروری ہے خواہ وہ بالاصالۃ ( یعنی خود) سنیں خواہ بالوکالۃ ( یعنی ان کے وکیل سنیں) اور خواہ بالولایۃ سنیں (یعنی ان کا ولی سنے) ایجاب و قبول کے وقت دو گواہوں کی موجودگی نکاح صحیح ہونے کی شرط ہے اور یہ گواہ خواہ دو مرد ہوں یا ایک مرد اور دو عورتیں ہو، گواہوں کا آزاد ہونا ضروری ہے لونڈی یا غلام گواہوں کی گواہی معتبر نہیں ہوگی، اسی طرح گواہوں کا عاقل اور مسلمان ہونا بھی ضروری ہے مسلمانوں کی گواہی ہر حال میں کافی ہوگی خواہ وہ پرہیزگار ہوں یا فاسق ہوں اور خواہ ان پر حد قذف لگائی جا چکی ہو۔ گواہوں کا بینا ہونا یا زوجین کا رشتہ دار نہ ہونا شرط نہیں ہے، چناچہ اندھو کی گواہی اور زوجین کے رشتہ داروں کی گواہی معتبر ہوگی خواہ وہ زوجین کے یا ان میں سے کسی ایک کے بیٹے ہی کیوں نہ ہوں، گواہوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ دونوں ایجاب و قبول کے الفاظ کو ایک ساتھ سنیں اور سن کر یہ سمجھ لیں کہ نکاح ہو رہا ہے گو ان الفاظ کے معنی نہ سمجھیں ( مثلا ایجاب و قبول کسی ایسی زبان میں ہو جسے وہ نہ جانتے ہوں) اگر دونوں گواہ ایجاب و قبول کے الفاظ ایک ساتھ نہ سنیں بلکہ الگ الگ سنیں تو نکاح صحیح نہیں ہوگا۔ اگر کسی شخص نے کسی دوسرے شخص سے کہا کہ میری فلانا بالغ لڑکی کا نکاح فلاں شخص کے ساتھ کردو اور اس شخص نے اس لڑکی کا نکاح اس باپ اور ایک دوسرے مرد کی موجودگی میں کیا تو یہ جائز ہوگا لیکن اگر باپ موجودہ ہو تو پھر دونوں مردوں یا ایک مرد اور عورتوں کی موجودگی کے بغیر نکاح درست نہیں ہوگا۔
Top