صحیح مسلم - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 2601
حدیث نمبر: 3540
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي جَنَابٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا عَدْوَى،‏‏‏‏ وَلَا طِيَرَةَ،‏‏‏‏ وَلَا هَامَةَ،‏‏‏‏ فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ الْبَعِيرُ يَكُونُ بِهِ الْجَرَبُ،‏‏‏‏ فَتَجْرَبُ بِهِ الْإِبِلُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ ذَلِكَ الْقَدَرُ فَمَنْ أَجْرَبَ الْأَوَّلَ.
نیک فال لینا پسندیدہ ہے اور بدفال لینا ناپسندیدہ ہے۔
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: چھوت چھات، بدشگونی اور الو دیکھنے کی کوئی حقیقت نہیں، ایک شخص آپ ﷺ کی جانب اٹھ کر بولا: اللہ کے رسول! ایک اونٹ کو جب کھجلی ہوتی ہے تو دوسرے اونٹ کو بھی اس کی وجہ سے کھجلی ہوجاتی ہے ١ ؎، آپ ﷺ نے فرمایا: یہی تو تقدیر ہے، آخر پہلے اونٹ کو کس نے کھجلی والا بنایا ٢ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: (٨٦)، (تحفة الأشراف: ٨٥٨٠، ومصباح الزجاجة: ١٢٣٥) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: مطلب یہ کہ امراض متعدی بھی ہوتے ہیں۔ ٢ ؎: اور جو ڈاکٹر یا حکیم ہمارے زمانے میں بعض بیماری میں عدوی بتلاتے ہیں، ان سے جب یہ اعتراض کرو کہ بھلا اگر عدوی صحیح ہوتا تو جس گھر میں ایک شخص کو ہیضہ ہو تو چاہیے کہ اس گھر کے بلکہ اس محلہ کے سب لوگ مرجائیں، تو اس کا کوئی معقول جواب نہیں دیتے، بلکہ یوں کہتے ہیں کہ بعض مزاجوں میں اس بیماری کے قبول کرنے کا مادہ ہوتا ہے تو ان کو بیماری لگ جاتی ہے، بعض مزاجوں میں یہ مادہ نہیں ہوتا تو ان کو باوجود قرب کے بیماری نہیں لگتی، ہم یوں کہتے ہیں کہ مادے کا مزاج میں پیدا کرنے والا کون ہے؟ اللہ تعالیٰ، تو پھر سب امور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوئے اسی کی مرضی اور تقدیر سے پھر عدوی کا قائل ہونا کیا ضروری ہے؟۔
Top