صحیح مسلم - آداب کا بیان - حدیث نمبر 2148
حدیث نمبر: 92
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ مَجُوسَ هَذِهِ الْأُمَّةِ الْمُكَذِّبُونَ بِأَقْدَارِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنْ مَرِضُوا فَلَا تَعُودُوهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ مَاتُوا فَلَا تَشْهَدُوهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ لَقِيتُمُوهُمْ فَلَا تُسَلِّمُوا عَلَيْهِمْ.
تقدیر کے بیان میں۔
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس امت کے مجوسی وہ لوگ ہیں جو اللہ کی تقدیر کے جھٹلانے والے ہیں، اگر وہ بیمار پڑجائیں تو تم ان کی عیادت نہ کرو، اگر مرجائیں تو ان کے جنازے میں شریک نہ ہو، اور اگر ان سے ملو تو انہیں سلام نہ کرو ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ٢٨٧٩، ومصباح الزجاجة: ٣٦) (حسن) (سند میں بقیہ بن الولید اور ابو الزبیر مدلس راوی ہیں، اور دونوں نے عنعنہ سے روایت کی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے، اور وإن لقيتموهم فلا تسلموا عليهم کا جملہ ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: السنة لا بن أبی عاصم: ٣٣٧ )
وضاحت: ١ ؎: نبی اکرم نے تقدیر کے منکرین کو مجوس سے اس لئے تشبیہ دی کہ وہ دو خالق کے قائل ہیں: ایک خیر کا خالق ہے، اس کا نام یزدان ہے، اور دوسرا شر کا خالق ہے، اس کا نام اہرمن ہے، اور قدریہ خالق سے خلق کے اختیار کو سلب کرتے ہیں اور خلق کو ہر مخلوق کے لئے ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ شر کا خالق نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ پر اصلح (زیادہ بہتر کام) واجب ہے، اور اسی لئے علمائے اہل سنت نے کہا ہے کہ معتزلہ مجوس سے بدتر ہیں اس لئے کہ وہ دو ہی خالق اور الٰہ کے قائل ہیں اور معتزلہ بہت سے خالقوں کے قائل ہیں کہ وہ ہر انسان کو اپنے افعال کا خالق قرار دیتے ہیں۔
Top