مسند امام احمد - - حدیث نمبر 4953
حدیث نمبر: 3041
حَدَّثَنَا مُصَرِّفُ بْنُ عَمْرٍو الْيَامِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يُونُسُ يَعْنِي ابْنَ بُكَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ الْهَمْدَانِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقُرَشِيِّ،‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ صَالَحَ:‏‏‏‏ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهْلَ نَجْرَانَ عَلَى أَلْفَيْ حُلَّةٍ النِّصْفُ فِي صَفَرٍ وَالْبَقِيَّةُ فِي رَجَبٍ يُؤَدُّونَهَا إِلَى الْمُسْلِمِينَ وَعَارِيَةِ ثَلَاثِينَ دِرْعًا وَثَلَاثِينَ فَرَسًا وَثَلَاثِينَ بَعِيرًا وَثَلَاثِينَ مِنْ كُلِّ صِنْفٍ مِنْ أَصْنَافِ السِّلَاحِ يَغْزُونَ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُسْلِمُونَ ضَامِنُونَ لَهَا حَتَّى يَرُدُّوهَا عَلَيْهِمْ إِنْ كَانَ بِالْيَمَنِ كَيْدٌ أَوْ غَدْرَةٌ عَلَى أَنْ لَا تُهْدَمَ لَهُمْ بَيْعَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يُخْرَجَ لَهُمْ قَسٌّ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يُفْتَنُوا عَنْ دِينِهِمْ مَا لَمْ يُحْدِثُوا حَدَثًا أَوْ يَأْكُلُوا الرِّبَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ إِسْمَاعِيل:‏‏‏‏ فَقَدْ أَكَلُوا الرِّبَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ إِذَا نَقَضُوا بَعْضَ مَا اشْتُرِطَ عَلَيْهِمْ فَقَدْ أَحْدَثُوا.
جزیہ لینے کا بیان
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے اہل نجران سے اس شرط پر صلح کی کہ وہ کپڑوں کے دو ہزار جوڑے مسلمانوں کو دیا کریں گے، آدھا صفر میں دیں، اور باقی ماہ رجب میں، اور تیس زرہیں، تیس گھوڑے اور تیس اونٹ اور ہر قسم کے ہتھیاروں میں سے تیس تیس ہتھیار جس سے مسلمان جہاد کریں گے بطور عاریت دیں گے، اور مسلمان ان کے ضامن ہوں گے اور (ضرورت پوری ہوجانے پر) انہیں لوٹا دیں گے اور یہ عاریۃً دینا اس وقت ہوگا جب یمن میں کوئی فریب کرے (یعنی سازش کر کے نقصان پہنچانا چاہے) یا مسلمانوں سے غداری کرے اور عہد توڑے (اور وہاں جنگ در پیش ہو) اس شرط پر کہ ان کا کوئی گرجا نہ گرایا جائے گا، اور کوئی پادری نہ نکالا جائے گا، اور ان کے دین میں مداخلت نہ کی جائے گی، جب تک کہ وہ کوئی نئی بات نہ پیدا کریں یا سود نہ کھانے لگیں۔ اسماعیل سدی کہتے ہیں: پھر وہ سود کھانے لگے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: جب انہوں نے اپنے اوپر لاگو بعض شرائط توڑ دیں تو نئی بات پیدا کرلی (اور وہ ملک عرب سے نکال دئیے گئے) ۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ٥٣٦١) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی اسماعیل سدی کا ابن عباس سے سماع ثابت نہیں )
Top