صحیح مسلم - امارت اور خلافت کا بیان - حدیث نمبر 2783
حدیث نمبر: 7533
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا يُونُسُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي سَالِمٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا بَقَاؤُكُمْ فِيمَنْ سَلَفَ مِنَ الْأُمَمِ كَمَا بَيْنَ صَلَاةِ الْعَصْرِ إِلَى غُرُوبِ الشَّمْسِ أُوتِيَ أَهْلُ التَّوْرَاةِ التَّوْرَاةَ، ‏‏‏‏‏‏فَعَمِلُوا بِهَا حَتَّى انْتَصَفَ النَّهَارُ ثُمَّ عَجَزُوا، ‏‏‏‏‏‏فَأُعْطُوا قِيرَاطًا قِيرَاطًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أُوتِيَ أَهْلُ الْإِنْجِيلِ الْإِنْجِيلَ، ‏‏‏‏‏‏فَعَمِلُوا بِهِ حَتَّى صُلِّيَتِ الْعَصْرُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ عَجَزُوا فَأُعْطُوا قِيرَاطًا قِيرَاطًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أُوتِيتُمُ الْقُرْآنَ فَعَمِلْتُمْ بِهِ حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ، ‏‏‏‏‏‏فَأُعْطِيتُمْ قِيرَاطَيْنِ قِيرَاطَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَهْلُ الْكِتَابِ:‏‏‏‏ هَؤُلَاءِ أَقَلُّ مِنَّا عَمَلًا وَأَكْثَرُ أَجْرًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ اللَّهُ:‏‏‏‏ هَلْ ظَلَمْتُكُمْ مِنْ حَقِّكُمْ شَيْئًا ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَهُوَ فَضْلِي أُوتِيهِ مَنْ أَشَاءُ.
اللہ تعالیٰ کا قول کہ آپ کہہ دیجئے کہ تورا ة لاؤ اور اسے پڑھو، نبی ﷺ کا قول کہ تو رات والوں کو تورات دی گئی تو انہوں نے اس پر عمل کیا اور تم لوگوں کو قرآن دیا گیا تو تم لوگوں نے اس پر عمل کیا، ابو رزین نے کہا کہ ’ یتلونہ‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ لوگ اس کی پیروی کرتے ہیں اور جیسا کہ عمل کرنا چاہیے اس پر عمل کرتے ہیں اور ”یتلی “ بول کر یہ مراد لیتے ہیں کہ پڑھا جاتا ہے، قرآن کے اچھی طرح پڑھنے اور تلاوت کرنے کو کہتے ہیں ،’ لا یمسہ ’ کے معنی ہیں کہ اس کا مزہ وہی پائیں جو قرآن پر ایمان لائیں اور اس کو اس کے حق کے ساتھ وہی اٹھائے گا جو یقین رکھے لہذا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن پر تورات کی ذمہ داری تھی انہوں نے اسے ادا نہیں کیا تو ان کی مثال گدے کی ہے جس پر کتابیں لدی ہوں، اس قوم کی بری مثال ہے جس نے اللہ کی آیت کو جھٹلا یا اور اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں کرتا نبی ﷺ نے اسلام اور ایمان کو عمل فرمایا۔ ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ نبی ﷺ نے بلال سے فرمایا کہ مجھ کو وہ عمل بتاؤ جو تم حالت اسلام میں بہت زیادہ امید کا کیا ہو انہوں نے کہا کیا میں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو میرے نزدیک بہت امید کا ہو بجز اس کے کہ میں نے پاکی ہی کی حالت میں نماز پڑھی ہے اور آپ سے کسی نے پوچھا کہ کو نسا عمل سب سے اچھا ہے، آپ نے فرمایا اللہ اور اس کو رسول پر ایمان لانا، پھر جہاد کرنا، پھر حج قبول ہے۔
ہم سے عبدان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں یونس نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سالم نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عمر ؓ نے کہ رسول اللہ نے فرمایا گذشتہ امتوں کے مقابلہ میں تمہارا وجود ایسا ہے جیسے عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت، اہل توریت کو توریت دی گئی تو انہوں نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ دن آدھا ہوگیا اور وہ عاجز ہوگئے۔ پھر انہیں ایک ایک قیراط دیا گیا۔ پھر اہل انجیل کو انجیل دی گئی اور انہوں نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ عصر کی نماز کا وقت ہوگیا، انہیں بھی ایک ایک قیراط دیا گیا۔ پھر تمہیں قرآن دیا گیا اور تم نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ مغرب کا وقت ہوگیا، تمہیں دو دو قیراط دئیے گئے، اس پر کتاب نے کہا کہ یہ ہم سے عمل میں کم ہیں اور اجر میں زیادہ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا میں نے تمہارا حق دینے میں کوئی ظلم کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر یہ میرا فضل ہے میں جسے چاہوں دوں۔
Top