مسند امام احمد - حضرت عمر فاروق (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 341
حدیث نمبر: 4986
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ مَقْتَلَ أَهْلِ الْيَمَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عِنْدَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:‏‏‏‏ إِنَّ عُمَرَ أَتَانِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ الْقَتْلَ قَدِ اسْتَحَرَّ يَوْمَ الْيَمَامَةِ بِقُرَّاءِ الْقُرْآنِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِالْقُرَّاءِ بِالْمَوَاطِنِ فَيَذْهَبَ كَثِيرٌ مِنَ الْقُرْآنِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ الْقُرْآنِ. قُلْتُ لِعُمَرَ:‏‏‏‏ كَيْفَ تَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ هَذَا وَاللَّهِ خَيْرٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَاجِعُنِي حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِذَلِكَ وَرَأَيْتُ فِي ذَلِكَ الَّذِي رَأَى عُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ زَيْدٌ:‏‏‏‏ قَالَ أَبُو بَكْرٍ:‏‏‏‏ إِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ لَا نَتَّهِمُكَ وَقَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ الْوَحْيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَتَبَّعَ الْقُرْآنَ فَاجْمَعْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَوَاللَّهِ لَوْ كَلَّفُونِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الْجِبَالِ مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا أَمَرَنِي بِهِ مِنْ جَمْعِ الْقُرْآنِ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ كَيْفَ تَفْعَلُونَ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَزَلْ أَبُو بَكْرٍ يُرَاجِعُنِي حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ لَهُ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ وعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏فَتَتَبَّعْتُ الْقُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنَ الْعُسُبِ وَاللِّخَافِ وَصُدُورِ الرِّجَالِ حَتَّى وَجَدْتُ آخِرَ سُورَةِ التَّوْبَةِ مَعَ أَبِي خُزَيْمَةَ الْأَنْصَارِيِّ، ‏‏‏‏‏‏لَمْ أَجِدْهَا مَعَ أَحَدٍ غَيْرِهُ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ سورة التوبة آية 128 حَتَّى خَاتِمَةِ بَرَاءَةَ فَكَانَتِ الصُّحُفُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ عِنْدَ عُمَرَ حَيَاتَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ عِنْدَ حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
باب: قرآن مجید کے جمع کرنے کا بیان۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عبید بن سباق نے اور ان سے زید بن ثابت ؓ نے بیان کیا کہ جنگ یمامہ میں (صحابہ کی بہت بڑی تعداد کے) شہید ہوجانے کے بعد ابوبکر ؓ نے مجھے بلا بھیجا۔ اس وقت عمر ؓ میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ یمامہ کی جنگ میں بہت بڑی تعداد میں قرآن کے قاریوں کی شہادت ہوگئی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ اسی طرح کفار کے ساتھ دوسری جنگوں میں بھی قراء قرآن بڑی تعداد میں قتل ہوجائیں گے اور یوں قرآن کے جاننے والوں کی بہت بڑی تعداد ختم ہوجائے گی۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ آپ قرآن مجید کو (باقاعدہ کتابی شکل میں) جمع کرنے کا حکم دے دیں۔ میں نے عمر ؓ سے کہا کہ آپ ایک ایسا کام کس طرح کریں گے جو رسول اللہ نے (اپنی زندگی میں) نہیں کیا؟ عمر ؓ نے اس کا یہ جواب دیا کہ اللہ کی قسم! یہ تو ایک کارخیر ہے۔ عمر ؓ یہ بات مجھ سے باربار کہتے رہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اس مسئلہ میں میرا بھی سینہ کھول دیا اور اب میری بھی وہی رائے ہوگئی جو عمر ؓ کی تھی۔ زید ؓ نے بیان کیا کہ ابوبکر ؓ نے کہا آپ (زید ؓ) جوان اور عقلمند ہیں، آپ کو معاملہ میں متہم بھی نہیں کیا جاسکتا اور آپ رسول اللہ کی وحی لکھتے بھی تھے، اس لیے آپ قرآن مجید کو پوری تلاش اور محنت کے ساتھ ایک جگہ جمع کردیں۔ اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ مجھے کسی پہاڑ کو بھی اس کی جگہ سے دوسری جگہ ہٹانے کے لیے کہتے تو میرے لیے یہ کام اتنا مشکل نہیں تھا جتنا کہ ان کا یہ حکم کہ میں قرآن مجید کو جمع کر دوں۔ میں نے اس پر کہا کہ آپ لوگ ایک ایسے کام کو کرنے کی ہمت کیسے کرتے ہیں جو رسول اللہ نے خود نہیں کیا تھا۔ ابوبکر ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ ایک عمل خیر ہے۔ ابوبکر ؓ یہ جملہ برابر دہراتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا بھی ان کی اور عمر ؓ کی طرح سینہ کھول دیا۔ چناچہ میں نے قرآن مجید (جو مختلف چیزوں پر لکھا ہوا موجود تھا) کی تلاش شروع کردی اور قرآن مجید کو کھجور کی چھلی ہوئی شاخوں، پتلے پتھروں سے، (جن پر قرآن مجید لکھا گیا تھا) اور لوگوں کے سینوں کی مدد سے جمع کرنے لگا۔ سورة التوبہ کی آخری آیتیں مجھے ابوخزیمہ انصاری ؓ کے پاس لکھی ہوئی ملیں، یہ چند آیات مکتوب شکل میں ان کے سوا اور کسی کے پاس نہیں تھیں لقد جاء کم رسول من أنفسکم عزيز عليه ما عنتم‏ سے سورة براۃ (سورۃ توبہ) کے خاتمہ تک۔ جمع کے بعد قرآن مجید کے یہ صحیفے ابوبکر ؓ کے پاس محفوظ تھے۔ پھر ان کی وفات کے بعد عمر ؓ نے جب تک وہ زندہ رہے اپنے ساتھ رکھا پھر وہ ام المؤمنین حفصہ بنت عمر ؓ کے پاس محفوظ رہے۔
Top