مسند امام احمد - حضرت جریربن عبداللہ (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 18286
حدیث نمبر: 3983
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ حُصَيْنَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا مَرْثَدٍ الْغَنَوِيَّ،‏‏‏‏ وَالزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ وَكُلُّنَا فَارِسٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ فَإِنَّ بِهَا امْرَأَةً مِنَ الْمُشْرِكِينَ مَعَهَا كِتَابٌ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ،‏‏‏‏ فَأَدْرَكْنَاهَا تَسِيرُ عَلَى بَعِيرٍ لَهَا حَيْثُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَقُلْنَا:‏‏‏‏ الْكِتَابُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ مَا مَعَنَا كِتَابٌ،‏‏‏‏ فَأَنَخْنَاهَا،‏‏‏‏ فَالْتَمَسْنَا فَلَمْ نَرَ كِتَابًا، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْنَا:‏‏‏‏ مَا كَذَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَنُجَرِّدَنَّكِ،‏‏‏‏ فَلَمَّا رَأَتِ الْجِدَّ أَهْوَتْ إِلَى حُجْزَتِهَا وَهِيَ مُحْتَجِزَةٌ بِكِسَاءٍ فَأَخْرَجَتْهُ،‏‏‏‏ فَانْطَلَقْنَا بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ فَدَعْنِي فَلِأَضْرِبَ عُنُقَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ حَاطِبٌ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا بِي أَنْ لَا أَكُونَ مُؤْمِنًا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ أَرَدْتُ أَنْ يَكُونَ لِي عِنْدَ الْقَوْمِ يَدٌ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهَا عَنْ أَهْلِي وَمَالِي،‏‏‏‏ وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِكَ إِلَّا لَهُ هُنَاكَ مِنْ عَشِيرَتِهِ مَنْ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهِ عَنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ صَدَقَ وَلَا تَقُولُوا لَهُ إِلَّا خَيْرًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ إِنَّهُ قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ فَدَعْنِي فَلِأَضْرِبَ عُنُقَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَلَيْسَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ إِلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ:‏‏‏‏ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ وَجَبَتْ لَكُمُ الْجَنَّةُ،‏‏‏‏ أَوْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ،‏‏‏‏ فَدَمَعَتْ عَيْنَا عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ.
باب: بدر کی لڑائی میں حاضر ہونے والوں کی فضیلت کا بیان۔
مجھ سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ ہم کو عبداللہ بن ادریس نے خبر دی ‘ کہا کہ میں نے حسین بن عبدالرحمٰن سے سنا ‘ انہوں نے سعد بن عبیدہ سے ‘ انہوں نے ابوعبدالرحمٰن سلمی سے کہ علی ؓ نے کہا مجھے ‘ ابومرثد ؓ اور زبیر ؓ کو رسول اللہ نے ایک مہم پر بھیجا۔ ہم سب شہسوار تھے۔ نبی کریم نے فرمایا کہ تم لوگ سیدھے چلے جاؤ۔ جب روضہ خاخ پر پہنچو تو وہاں تمہیں مشرکین کی ایک عورت ملے گی ‘ وہ ایک خط لیے ہوئے ہے جسے حاطب بن ابی بلتعہ نے مشرکین کے نام بھیجا ہے۔ چناچہ نبی کریم نے جس جگہ کا پتہ دیا تھا ہم نے وہیں اس عورت کو ایک اونٹ پر جاتے ہوئے پا لیا۔ ہم نے اس سے کہا کہ خط دے دو۔ وہ کہنے لگی کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے۔ ہم نے اس کے اونٹ کو بیٹھا کر اس کی تلاشی لی تو واقعی ہمیں بھی کوئی خط نہیں ملا۔ لیکن ہم نے کہا کہ نبی کریم کی بات کبھی غلط نہیں ہوسکتی خط نکال ورنہ ہم تجھے ننگا کردیں گے۔ جب اس نے ہمارا یہ سخت رویہ دیکھا تو ازار باندھنے کی جگہ کی طرف اپنا ہاتھ لے گئی وہ ایک چادر میں لپٹی ہوئی تھی اور اس نے خط نکال کر ہم کو دے دیا ہم اسے لے کر نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عمر ؓ نے کہا کہ اس نے (یعنی حاطب بن ابی بلتعہ نے) اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں سے دغا کی ہے آپ مجھے اجازت دیں تاکہ میں اس کی گردن مار دوں لیکن آپ نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا؟ حاطب ؓ بولے: اللہ کی قسم! یہ وجہ ہرگز نہیں تھی کہ اللہ اور اس کے رسول پر میرا ایمان باقی نہیں رہا تھا میرا مقصد تو صرف اتنا تھا کہ قریش پر اس طرح میرا ایک احسان ہوجائے اور اس کی وجہ سے وہ (مکہ میں باقی رہ جانے والے) میرے اہل و عیال کی حفاظت کریں۔ آپ کے اصحاب میں جتنے بھی حضرات (مہاجرین) ہیں ان سب کا قبیلہ وہاں موجود ہے اور اللہ ان کے ذریعے ان کے اہل و مال کی حفاظت کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے سچی بات بتادی ہے اور تم لوگوں کو چاہیے کہ ان کے متعلق اچھی بات ہی کہو۔ عمر ؓ نے پھر عرض کیا کہ اس شخص نے اللہ، اس کے رسول اور مسلمانوں سے دغا کی ہے آپ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اس کی گردن مار دوں۔ آپ نے ان سے فرمایا کہ کیا یہ بدر والوں میں سے نہیں ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اہل بدر کے حالات کو پہلے ہی سے جانتا تھا اور وہ خود فرما چکا ہے کہ تم جو چاہو کرو، تمہیں جنت ضرور ملے گی۔ (یا آپ نے یہ فرمایا کہ) میں نے تمہاری مغفرت کردی ہے یہ سن کر عمر ؓ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔
Top