صحیح مسلم - صلہ رحمی کا بیان - حدیث نمبر 6162
حدیث نمبر: 4665
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ:‏‏‏‏ قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ:‏‏‏‏ وَكَانَ بَيْنَهُمَا شَيْءٌ، ‏‏‏‏‏‏فَغَدَوْتُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ أَتُرِيدُ أَنْ تُقَاتِلَ ابْنَ الزُّبَيْرِ فَتُحِلَّ حَرَمَ اللَّهِ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَعَاذَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ ابْنَ الزُّبَيْرِ وَبَنِي أُمَيَّةَ مُحِلِّينَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُحِلُّهُ أَبَدًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّاسُ:‏‏‏‏ بَايِعْ لِابْنِ الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ وَأَيْنَ بِهَذَا الْأَمْرِ عَنْهُ أَمَّا أَبُوهُ فَحَوَارِيُّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ الزُّبَيْرَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا جَدُّهُ فَصَاحِبُ الْغَارِ يُرِيدُ أَبَا بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأُمُّهُ فَذَاتُ النِّطَاقِ يُرِيدُ أَسْمَاءَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا خَالَتُهُ فَأُمُّ الْمُؤْمِنِينَ يُرِيدُ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا عَمَّتُهُ فَزَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ خَدِيجَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا عَمَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَدَّتُهُ يُرِيدُ صَفِيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ عَفِيفٌ فِي الْإِسْلَامِ قَارِئٌ لِلْقُرْآنِ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ إِنْ وَصَلُونِي وَصَلُونِي مِنْ قَرِيبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ رَبُّونِي رَبُّونِي أَكْفَاءٌ كِرَامٌ، ‏‏‏‏‏‏فَآثَرَ التُّوَيْتَاتِ وَالْأُسَامَاتِ وَالْحُمَيْدَاتِ، ‏‏‏‏‏‏يُرِيدُ أَبْطُنًا مِنْ بَنِي أَسَدٍ، ‏‏‏‏‏‏بَنِي تُوَيْتٍ، ‏‏‏‏‏‏وَبَنِي أُسَامَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَبَنِي أَسَدٍ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ ابْنَ أَبِي الْعَاصِ بَرَزَ يَمْشِي الْقُدَمِيَّةَ يَعْنِي عَبْدَ الْمَلِكِ بْنَ مَرْوَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ لَوَّى ذَنَبَهُ يَعْنِي ابْنَ الزُّبَيْرِ.
باب: آیت کی تفسیر ”جب کہ دو میں سے ایک وہ تھے دونوں غار میں (موجود) تھے جب وہ رسول ﷺ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھا کہ فکر نہ کر اللہ پاک ہمارے ساتھ ہے“۔
مجھ سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحییٰ ابن معین نے بیان کیا، کہا ہم سے حجاج بن محمد نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ ابن عباس اور ابن زبیر ؓ کے درمیان بیعت کا جھگڑا پیدا ہوگیا تھا۔ میں صبح کو ابن عباس ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا آپ عبداللہ بن زبیر ؓ سے جنگ کرنا چاہتے ہیں، اس کے باوجود کہ اللہ کے حرم کی بےحرمتی ہوگی؟ ابن عباس ؓ نے فرمایا: معاذاللہ! یہ تو اللہ تعالیٰ نے ابن زبیر اور بنو امیہ ہی کے مقدر میں لکھ دیا ہے کہ وہ حرم کی بےحرمتی کریں۔ اللہ کی قسم! میں کسی صورت میں بھی اس بےحرمتی کے لیے تیار نہیں ہوں۔ ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ لوگوں نے مجھ سے کہا تھا کہ ابن زبیر سے بیعت کرلو۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے ان کی خلافت کو تسلیم کرنے میں کیا تامل ہوسکتا ہے، ان کے والد نبی کریم کے حواری تھے، آپ کی مراد زبیر بن عوام سے تھی۔ ان کے نانا صاحب غار تھے، اشارہ ابوبکر صدیق ؓ کی طرف تھا۔ ان کی والدہ صاحب نطاقین تھیں یعنی اسماء ؓ۔ ان کی خالہ ام المؤمنین تھیں، مراد عائشہ ؓ سے تھی۔ ان کی پھوپھی نبی کریم کی زوجہ مطہرہ تھیں، مراد خدیجہ ؓ سے تھی۔ ابن عباس کی مراد ان باتوں سے یہ تھی کہ وہ بہت سی خوبیوں کے مالک ہیں اور نبی کریم کی پھوپھی ان کی دادی ہیں، اشارہ صفیہ ؓ کی طرف تھا۔ اس کے علاوہ وہ خود اسلام میں ہمیشہ صاف کردار اور پاک دامن رہے اور قرآن کے عالم ہیں اور اللہ کی قسم! اگر وہ مجھ سے اچھا برتاؤ کریں تو ان کو کرنا ہی چاہیے وہ میرے بہت قریب کے رشتہ دار ہیں اور اگر وہ مجھ پر حکومت کریں تو خیر حکومت کریں وہ ہمارے برابر کے عزت والے ہیں۔ لیکن عبداللہ بن زبیر ؓ نے تو تویت، اسامہ اور حمید کے لوگوں کو ہم پر ترجیح دی ہے۔ ان کی مراد مختلف قبائل یعنی بنو اسد، بنو تویت، بنو اسامہ اور بنو اسد سے تھی۔ ادھر ابن ابی العاص بڑی عمدگی سے چل رہا ہے یعنی عبدالملک بن مروان مسلسل پیش قدمی کر رہا ہے اور عبداللہ بن زبیر ؓ نے اس کے سامنے دم دبا لی ہے۔
Top