صحیح مسلم - مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام کا بیان - حدیث نمبر 3110
حدیث نمبر: 3045
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ أَبِي سُفْيَانَ بْنِ أَسِيدِ بْنِ جَارِيَةَ الثَّقَفِيُّوَهُوَ حَلِيفٌ لِبَنِي زُهْرَةَ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةَ رَهْطٍ سَرِيَّةً عَيْنًا، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَاصِمَ بْنَ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيَّ جَدَّ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَانْطَلَقُوا حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالْهَدَأَةِ وَهُوَ بَيْنَ عُسْفَانَ ومَكَّةَ ذُكِرُوا لِحَيٍّ مِنْ هُذَيْلٍ، ‏‏‏‏‏‏يُقَالُ لَهُمْ:‏‏‏‏ بَنُو لَحْيَانَ فَنَفَرُوا لَهُمْ قَرِيبًا مِنْ مِائَتَيْ رَجُلٍ كُلُّهُمْ رَامٍ فَاقْتَصُّوا آثَارَهُمْ حَتَّى وَجَدُوا مَأْكَلَهُمْ تَمْرًا تَزَوَّدُوهُ مِنْ الْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ هَذَا تَمْرُ يَثْرِبَ فَاقْتَصُّوا آثَارَهُمْ فَلَمَّا رَآهُمْ عَاصِمٌ وَأَصْحَابُهُ لَجَئُوا إِلَى فَدْفَدٍ وَأَحَاطَ بِهِمُ الْقَوْمُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا لَهُمْ:‏‏‏‏ انْزِلُوا وَأَعْطُونَا بِأَيْدِيكُمْ وَلَكُمُ الْعَهْدُ وَالْمِيثَاقُ وَلَا نَقْتُلُ مِنْكُمْ أَحَدًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَاصِمُ بْنُ ثَابِتٍ أَمِيرُ السَّرِيَّةِ:‏‏‏‏ أَمَّا أَنَا فَوَاللَّهِ لَا أَنْزِلُ الْيَوْمَ فِي ذِمَّةِ كَافِرٍ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ أَخْبِرْ عَنَّا نَبِيَّكَ فَرَمَوْهُمْ بِالنَّبْلِ فَقَتَلُوا عَاصِمًا فِي سَبْعَةٍ فَنَزَلَ إِلَيْهِمْ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ بِالْعَهْدِ وَالْمِيثَاقِ مِنْهُمْ خُبَيْبٌ الْأَنْصَارِيُّ وابْنُ دَثِنَةَ وَرَجُلٌ آخَرُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا اسْتَمْكَنُوا مِنْهُمْ أَطْلَقُوا أَوْتَارَ قِسِيِّهِمْ فَأَوْثَقُوهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ الرَّجُلُ الثَّالِثُ هَذَا أَوَّلُ الْغَدْرِ وَاللَّهِ لَا أَصْحَبُكُمْ إِنَّ لِي فِي هَؤُلَاءِ لَأُسْوَةً يُرِيدُ الْقَتْلَى فَجَرَّرُوهُ وَعَالَجُوهُ عَلَى أَنْ يَصْحَبَهُمْ فَأَبَى فَقَتَلُوهُ، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلَقُوا بِخُبَيْبٍ وابْنِ دَثِنَةَ حَتَّى بَاعُوهُمَا بِمَكَّةَ بَعْدَ وَقْعَةِ بَدْرٍ فَابْتَاعَ خُبَيْبًا بَنُو الْحَارِثِ بْنِ عَامِرِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ خُبَيْبٌ هُوَ قَتَلَ الْحَارِثَ بْنَ عَامِرٍ يَوْمَ بَدْرٍ فَلَبِثَ خُبَيْبٌ عِنْدَهُمْ أَسِيرًا. فَأَخْبَرَنِيعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عِيَاضٍ أَنَّ بِنْتَ الْحَارِثِ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهُمْ حِينَ اجْتَمَعُوا اسْتَعَارَ مِنْهَا مُوسَى يَسْتَحِدُّ بِهَا فَأَعَارَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَ ابْنًا لِي وَأَنَا غَافِلَةٌ حِينَ أَتَاهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَوَجَدْتُهُ مُجْلِسَهُ عَلَى فَخِذِهِ وَالْمُوسَى بِيَدِهِ فَفَزِعْتُ فَزْعَةً عَرَفَهَا خُبَيْبٌ فِي وَجْهِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ تَخْشَيْنَ أَنْ أَقْتُلَهُ مَا كُنْتُ لِأَفْعَلَ ذَلِكَ وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ أَسِيرًا قَطُّ خَيْرًا مِنْ خُبَيْبٍ وَاللَّهِ لَقَدْ وَجَدْتُهُ يَوْمًا يَأْكُلُ مِنْ قِطْفِ عِنَبٍ فِي يَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ لَمُوثَقٌ فِي الْحَدِيدِ وَمَا بِمَكَّةَ مِنْ ثَمَرٍ وَكَانَتْ تَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّهُ لَرِزْقٌ مِنَ اللَّهِ رَزَقَهُ خُبَيْبًا فَلَمَّا خَرَجُوا مِنَ الْحَرَمِ لِيَقْتُلُوهُ فِي الْحِلِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لَهُمْ:‏‏‏‏ خُبَيْبٌ ذَرُونِي أَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ فَتَرَكُوهُ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ لَوْلَا أَنْ تَظُنُّوا أَنَّ مَا بِي جَزَعٌ لَطَوَّلْتُهَا اللَّهُمَّ أَحْصِهِمْ عَدَدًا وَلَسْتُ أُبَالِي حِينَ أُقْتَلُ مُسْلِمًا عَلَى أَيِّ شِقٍّ كَانَ لِلَّهِ مَصْرَعِي وَذَلِكَ فِي ذَاتِ الْإِلَهِ وَإِنْ يَشَأْ يُبَارِكْ عَلَى أَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ فَقَتَلَهُ ابْنُ الْحَارِثِ فَكَانَ خُبَيْبٌ هُوَ سَنَّ الرَّكْعَتَيْنِ لِكُلِّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ قُتِلَ صَبْرًا فَاسْتَجَابَ اللَّهُ لِعَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ يَوْمَ أُصِيبَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخْبَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَهُ خَبَرَهُمْ وَمَا أُصِيبُوا وَبَعَثَ نَاسٌ مِنْ كُفَّارِ قُرَيْشٍ إِلَى عَاصِمٍ حِينَ حُدِّثُوا أَنَّهُ قُتِلَ لِيُؤْتَوْا بِشَيْءٍ مِنْهُ يُعْرَفُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ قَدْ قَتَلَ رَجُلًا مِنْ عُظَمَائِهِمْ يَوْمَ بَدْرٍ فَبُعِثَ عَلَى عَاصِمٍ مِثْلُ الظُّلَّةِ مِنَ الدَّبْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَحَمَتْهُ مِنْ رَسُولِهِمْ فَلَمْ يَقْدِرُوا عَلَى أَنْ يَقْطَعَ مِنْ لَحْمِهِ شَيْئًا.
باب: اپنے تئیں قید کرا دینا اور جو شخص قید نہ کرائے اس کا حکم اور قتل کے وقت دو رکعت نماز پڑھنا۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی ‘ اس سے زہری نے بیان کیا ‘ انہیں عمرو بن سفیان بن اسید بن جاریہ ثقفی نے خبر دی ‘ وہ بنی زہرہ کے حلیف تھے اور ابوہریرہ ؓ کے دوست ‘ انہوں نے کہا کہ ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ نے دس صحابہ کی ایک جماعت کفار کی جاسوسی کے لیے بھیجی ‘ اس جماعت کا امیر عاصم بن عمر بن خطاب کے نانا عاصم بن ثابت انصاری ؓ کو بنایا اور جماعت روانہ ہوگئی۔ جب یہ لوگ مقام ھداۃ پر پہنچے جو عسفان اور مکہ کے درمیان میں ہے تو قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ بنولحیان کو کسی نے خبر دے دی اور اس قبیلہ کے دو سو تیر اندازوں کی جماعت ان کی تلاش میں نکلی ‘ یہ سب صحابہ کے نشانات قدم سے اندازہ لگاتے ہوئے چلتے چلتے آخر ایک ایسی جگہ پر پہنچ گئے جہاں صحابہ نے بیٹھ کر کھجوریں کھائی تھیں ‘ جو وہ مدینہ منورہ سے اپنے ساتھ لے کر چلے تھے۔ پیچھا کرنے والوں نے کہا کہ یہ (گٹھلیاں) تو یثرب (مدینہ) کی (کھجوروں کی) ہیں اور پھر قدم کے نشانوں سے اندازہ کرتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔ آخر عاصم ؓ اور ان کے ساتھیوں نے جب انہیں دیکھا تو ان سب نے ایک پہاڑ کی چوٹی پر پناہ لی ‘ مشرکین نے ان سے کہا کہ ہتھیار ڈال کر نیچے اتر آؤ ‘ تم سے ہمارا عہد و پیمان ہے۔ ہم کسی شخص کو بھی قتل نہیں کریں گے۔ عاصم بن ثابت ؓ مہم کے امیر نے کہا کہ میں تو آج کسی صورت میں بھی ایک کافر کی پناہ میں نہیں اتروں گا۔ اے اللہ! ہماری حالت سے اپنے نبی کو مطلع کر دے۔ اس پر ان کافروں نے تیر برسانے شروع کر دئیے اور عاصم ؓ اور سات دوسرے صحابہ کو شہید کر ڈالا باقی تین صحابی ان کے عہد و پیمان پر اتر آئے، یہ خبیب انصاری ؓ ابن دثنہ ؓ اور ایک تیسرے صحابی (عبداللہ بن طارق بلوی ؓ) تھے۔ جب یہ صحابی ان کے قابو میں آگئے تو انہوں نے اپنی کمانوں کے تانت اتار کر ان کو ان سے باندھ لیا ‘ عبداللہ بن طارق ؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم! یہ تمہاری پہلی غداری ہے۔ میں تمہارے ساتھ ہرگز نہ جاؤں گا ‘ بلکہ میں تو انہیں کا اسوہ اختیار کروں گا ‘ ان کی مراد شہداء سے تھی۔ مگر مشرکین انہیں کھنچنے لگے اور زبردستی اپنے ساتھ لے جانا چاہا جب وہ کسی طرح نہ گئے تو ان کو بھی شہید کردیا۔ اب یہ خبیب اور ابن دثنہ ؓ کو ساتھ لے کر چلے اور ان کو مکہ میں لے جا کر بیچ دیا۔ یہ جنگ بدر کے بعد کا واقعہ ہے۔ خبیب ؓ کو حارث بن عامر بن نوفل بن عبد مناف کے لڑکوں نے خرید لیا، خبیب ؓ نے ہی بدر کی لڑائی میں حارث بن عامر کو قتل کیا تھا۔ آپ ان کے یہاں کچھ دنوں تک قیدی بن کر رہے، (زہری نے بیان کیا) کہ مجھے عبیداللہ بن عیاض نے خبر دی اور انہیں حارث کی بیٹی (زینب ؓ) نے خبر دی کہ جب (ان کو قتل کرنے کے لیے) لوگ آئے تو زینب سے انہوں نے موئے زیر ناف مونڈنے کے لیے استرا مانگا۔ انہوں نے استرا دے دیا، (زینب نے بیان کیا) پھر انہوں نے میرے ایک بچے کو اپنے پاس بلا لیا ‘ جب وہ ان کے پاس گیا تو میں غافل تھی ‘ زینب نے بیان کیا کہ پھر جب میں نے اپنے بچے کو ان کی ران پر بیٹھا ہوا دیکھا اور استرا ان کے ہاتھ میں تھا ‘ تو میں اس بری طرح گھبرا گئی کہ خبیب ؓ بھی میرے چہرے سے سمجھ گئے انہوں نے کہا ‘ تمہیں اس کا خوف ہوگا کہ میں اسے قتل کر ڈالوں گا ‘ یقین کرو میں کبھی ایسا نہیں کرسکتا۔ اللہ کی قسم! کوئی قیدی میں نے خبیب سے بہتر کبھی نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم! میں نے ایک دن دیکھا کہ انگور کا خوشہ ان کے ہاتھ میں ہے اور وہ اس میں سے کھا رہے ہیں۔ حالانکہ وہ لوہے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور مکہ میں پھلوں کا موسم بھی نہیں تھا۔ کہا کرتی تھیں کہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی روزی تھی جو اللہ نے خبیب ؓ کو بھیجی تھی۔ پھر جب مشرکین انہیں حرم سے باہر لائے ‘ تاکہ حرم کے حدود سے نکل کر انہیں شہید کردیں تو خبیب ؓ نے ان سے کہا کہ مجھے صرف دو رکعت نماز پڑھ لینے دو۔ انہوں نے ان کو اجازت دے دی۔ پھر خبیب ؓ نے دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا ‘ اگر تم یہ خیال نہ کرنے لگتے کہ میں (قتل سے) گھبرا رہا ہوں تو میں ان رکعتوں کو اور لمبا کرتا۔ اے اللہ! ان ظالموں سے ایک ایک کو ختم کر دے، (پھر یہ اشعار پڑھے) جبکہ میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جا رہا ہوں ‘ تو مجھے کسی قسم کی بھی پرواہ نہیں ہے۔ خواہ اللہ کے راستے میں مجھے کسی پہلو پر بھی پچھاڑا جائے، یہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہے اور اگر وہ چاہے تو اس جسم کے ٹکڑوں میں بھی برکت دے سکتا ہے جس کی بوٹی بوٹی کردی گئی ہو۔ آخر حارث کے بیٹے (عقبہ) نے ان کو شہید کردیا۔ خبیب ؓ سے ہی ہر اس مسلمان کے لیے جسے قید کر کے قتل کیا جائے (قتل سے پہلے) دو رکعتیں مشروع ہوئی ہیں۔ ادھر حادثہ کے شروع ہی میں عاصم بن ثابت ؓ (مہم کے امیر) کی دعا اللہ تعالیٰ نے قبول کرلی تھی کہ اے اللہ! ہماری حالت کی خبر اپنے نبی کو دیدے) اور نبی کریم نے اپنے صحابہ کو وہ سب حالات بتا دیئے تھے جن سے یہ مہم دو چار ہوئی تھی۔ کفار قریش کے کچھ لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ عاصم شہید کردیئے گئے تو انہوں نے نے ان کی لاش کے لیے اپنے آدمی بھیجے تاکہ ان کی جسم کا کوئی ایسا حصہ کاٹ لائیں جس سے ان کی شناخت ہوسکتی ہو۔ عاصم ؓ نے بدر کی جنگ میں کفار قریش کے ایک سردار (عقبہ بن ابی معیط) کو قتل کیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے بھڑوں کا ایک چھتہ عاصم کی نعش پر قائم کردیا انہوں نے قریش کے آدمیوں سے عاصم کی لاش کو بچا لیا اور وہ ان کے بدن کا کوئی ٹکڑا نہ کاٹ سکے۔
Top