صحیح مسلم - فرائض کا بیان - حدیث نمبر 4017
حدیث نمبر: 6148
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ فَسِرْنَا لَيْلًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ لِعَامِرِ بْنِ الْأَكْوَعِ:‏‏‏‏ أَلَا تُسْمِعُنَا مِنْ هُنَيْهَاتِكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ وَكَانَ عَامِرٌ رَجُلًا شَاعِرًا فَنَزَلَ يَحْدُو بِالْقَوْمِ يَقُولُ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا فَاغْفِرْ فِدَاءٌ لَكَ مَا اقْتَفَيْنَا وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا وَأَلْقِيَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا إِنَّا إِذَا صِيحَ بِنَا أَتَيْنَا وَبِالصِّيَاحِ عَوَّلُوا عَلَيْنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ هَذَا السَّائِقُ ؟قَالُوا:‏‏‏‏ عَامِرُ بْنُ الْأَكْوَعِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَرْحَمُهُ اللَّهُفَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ:‏‏‏‏ وَجَبَتْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ لَوْلَا أَمْتَعْتَنَا بِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَتَيْنَا خَيْبَرَ فَحَاصَرْنَاهُمْ حَتَّى أَصَابَتْنَا مَخْمَصَةٌ شَدِيدَةٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ إِنَّ اللَّهَ فَتَحَهَا عَلَيْهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَمْسَى النَّاسُ الْيَوْمَ الَّذِي فُتِحَتْ عَلَيْهِمْ أَوْقَدُوا نِيرَانًا كَثِيرَةً، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَا هَذِهِ النِّيرَانُ عَلَى أَيِّ شَيْءٍ تُوقِدُونَ ؟ قَالُوا:‏‏‏‏ عَلَى لَحْمٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عَلَى أَيِّ لَحْمٍ ؟قَالُوا:‏‏‏‏ عَلَى لَحْمِ حُمُرٍ إِنْسِيَّةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَهْرِقُوهَا وَاكْسِرُوهَافَقَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوْ نُهَرِيقُهَا وَنَغْسِلُهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَوْ ذَاكَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا تَصَافَّ الْقَوْمُ كَانَ سَيْفُ عَامِرٍ فِيهِ قِصَرٌ فَتَنَاوَلَ بِهِ يَهُودِيًّا لِيَضْرِبَهُ وَيَرْجِعُ ذُباب سَيْفِهِ فَأَصَابَ رُكْبَةَ عَامِرٍ فَمَاتَ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا قَفَلُوا قَالَ سَلَمَةُ:‏‏‏‏ رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاحِبًا فَقَالَ لِي:‏‏‏‏ مَا لَكَ ؟فَقُلْتُ:‏‏‏‏ فِدًى لَكَ أَبِي وَأُمِّي زَعَمُوا أَنَّ عَامِرًا حَبِطَ عَمَلُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ قَالَهُ ؟قُلْتُ:‏‏‏‏ قَالَهُ فُلَانٌ وَفُلَانٌ وَفُلَانٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأُسَيْدُ بْنُ الْحُضَيْرِ الْأَنْصَارِيُّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ كَذَبَ مَنْ قَالَهُ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ لَهُ لَأَجْرَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَجَمَعَ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ إِنَّهُ لَجَاهِدٌ مُجَاهِدٌ قَلَّ عَرَبِيٌّ نَشَأَ بِهَا مِثْلَهُ.
شعر و رجز اور حدی خوانی کس طرح کی جائز ہے اور کیا مکروہ ہے اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ شعراء کی اتباع بھٹکے ہوئے لوگ کرتے ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ ہر وادی میں حیران و سرگرداں پھرتے ہیں اور وہ لوگ ایسی بات کہتے ہیں جو نہیں کرتے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح کرتے ہیں اور اللہ کو بہت یاد کرتے ہیں اور ظلم کئے جانے کے بعد بدلہ لیتے ہیں اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ کس کروٹ پلٹتے ہیں اور ابن عباس ؓ نے (فی کل واد یھیمون) کی تفسیر یہ بیان کی لغو خیالات میں غوطے لگاتے ہیں۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے، ان سے برید ابن ابی عبید نے اور ان سے سلمہ بن اکوع ؓ نے کہ رسول اللہ کے ساتھ جنگ خیبر میں گئے اور ہم نے رات میں سفر کیا، اتنے میں مسلمانوں کے آدمی نے عامر بن اکوع رضی للہ عنہ سے کہا کہ اپنے کچھ شعر اشعار سناؤ۔ راوی نے بیان کیا کہ عامر شاعر تھے۔ وہ لوگوں کو اپنی حدی سنانے لگے۔ اے اللہ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے نہ ہم صدقہ دے سکتے اور نہ نماز پڑھ سکتے۔ ہم تجھ پر فدا ہوں، ہم نے جو کچھ پہلے گناہ کئے ان کو تو معاف کر دے اور جب (دشمن سے) ہمارا سامنا ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ اور ہم پر سکون نازل فرما۔ جب ہمیں جنگ کے لیے بلایا جاتا ہے، تو ہم موجود ہوجاتے ہیں اور دشمن نے بھی پکار کر ہم سے نجات چاہی ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ یہ کون اونٹوں کو ہانک رہا ہے جو حدی گا رہا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ عامر بن اکوع ہے۔ نبی کریم نے فرمایا کہ اللہ پاک اس پر رحم کرے۔ ایک صحابی یعنی عمر ؓ نے کہا: یا رسول اللہ! اب تو عامر شہید ہوئے۔ کاش اور چند روز آپ ہم کو عامر سے فائدہ اٹھانے دیتے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر ہم خیبر آئے اور اس کو گھیر لیا اس گھراؤ میں ہم شدید فاقوں میں مبتلا ہوئے، پھر اللہ تعالیٰ نے خیبر والوں پر ہم کو فتح عطا فرمائی جس دن ان پر فتح ہوئی اس کی شام کو لوگوں نے جگہ جگہ آگ جلائی۔ نبی کریم نے پوچھا کہ یہ آگ کیسی ہے، کس کام کے لیے تم لوگوں نے یہ آگ جلائی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ گوشت پکانے کے لیے۔ اس پر آپ نے دریافت فرمایا کس چیز کے گوشت کے لیے؟ صحابہ نے کہا کہ بستی کے پالتو گدھوں کا گوشت پکانے کے لیے۔ نبی کریم نے فرمایا کہ گوشت کو برتنوں میں سے پھینک دو اور برتنوں کو توڑ دو۔ ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم گوشت تو پھینک دیں، مگر برتن توڑنے کے بجائے اگر دھو لیں؟ نبی کریم نے فرمایا اچھا یوں ہی کرلو۔ جب لوگوں نے جنگ کی صف بندی کرلی تو عامر (ابن اکوع شاعر) نے اپنی تلوار سے ایک یہودی پر وار کیا، ان کی تلوار چھوٹی تھی اس کی نوک پلٹ کر خود ان کے گھٹنوں پر لگی اور اس کی وجہ سے ان کی شہادت ہوگئی۔ جب لوگ واپس آنے لگے تو سلمہ (عامر کے بھائی) نے بیان کیا کہ مجھے نبی کریم نے دیکھا کہ میرے چہرے کا رنگ بدلا ہوا ہے۔ دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پر میرے ماں اور باپ فدا ہوں، لوگ کہہ رہے ہیں کہ عامر کے اعمال برباد ہوگئے۔ (کیونکہ ان کی موت خود ان کی تلوار سے ہوئی ہے) نبی کریم نے فرمایا یہ کس نے کہا؟ میں نے عرض کیا: فلاں، فلاں، فلاں اور اسید بن حضیر انصاری نے۔ نبی کریم نے فرمایا کہ جس نے یہ بات کہی اس نے جھوٹ کہا ہے انہیں تو دوہرا اجر ملے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو انگلیوں کو ملا کر اشارہ کیا کہ وہ عابد بھی تھا اور مجاہد بھی (تو عبادت اور جہاد دونوں کا ثواب اس نے پایا) عامر کی طرح تو بہت کم بہادر عرب میں پیدا ہوئے ہیں (وہ ایسا بہادر اور نیک آدمی تھا) ۔
Top