صحیح مسلم - زہد و تقوی کا بیان - حدیث نمبر 5038
حدیث نمبر: 3007
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ سَمِعْتُهُ مِنْهُ مَرَّتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي حَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي رَافِعٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا والزُّبَيْرَ والْمِقْدَادَ بْنَ الْأَسْوَدِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ فَإِنَّ بِهَا ظَعِينَةً وَمَعَهَا كِتَابٌ فَخُذُوهُ مِنْهَا فَانْطَلَقْنَا تَعَادَى بِنَا خَيْلُنَا حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى الرَّوْضَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا نَحْنُ بِالظَّعِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْنَا:‏‏‏‏ أَخْرِجِي الْكِتَابَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ مَا مَعِي مِنْ كِتَابٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْنَا:‏‏‏‏ لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَنُلْقِيَنَّ الثِّيَابَ فَأَخْرَجَتْهُ مِنْ عِقَاصِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْنَا بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا فِيهِ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى أُنَاسٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ يُخْبِرُهُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يَا حَاطِبُ مَا هَذَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَا تَعْجَلْ عَلَيَّ إِنِّي كُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِي قُرَيْشٍ وَلَمْ أَكُنْ مِنْ أَنْفُسِهَا وَكَانَ مَنْ مَعَكَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ لَهُمْ قَرَابَاتٌ بِمَكَّةَ يَحْمُونَ بِهَا أَهْلِيهِمْ وَأَمْوَالَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِي ذَلِكَ مِنَ النَّسَبِ فِيهِمْ أَنْ أَتَّخِذَ عِنْدَهُمْ يَدًا يَحْمُونَ بِهَا قَرَابَتِي وَمَا فَعَلْتُ كُفْرًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا ارْتِدَادًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا رِضًا بِالْكُفْرِ بَعْدَ الْإِسْلَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَقَدْ صَدَقَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَكُونَ قَدِ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ سُفْيَانُ:‏‏‏‏ وَأَيُّ إِسْنَادٍ هَذَا.
باب: جاسوسی کا بیان۔
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا ‘ سفیان نے یہ حدیث عمرو بن دینار سے دو مرتبہ سنی تھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے حسن بن محمد نے خبر دی ‘ کہا کہ مجھے عبیداللہ بن ابی رافع نے خبر دی ‘ کہا کہ میں نے علی ؓ سے سنا ‘ آپ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ نے مجھے، زبیر اور مقداد بن اسود ؓ کو ایک مہم پر بھیجا اور آپ نے فرمایا کہ جب تم لوگ روضہ خاخ (جو مدینہ سے بارہ میل کے فاصلہ پر ایک جگہ کا نام ہے) پر پہنچ جاؤ تو وہاں ایک بڑھیا عورت تمہیں اونٹ پر سوار ملے گی اور اس کے پاس ایک خط ہوگا ‘ تم لوگ اس سے وہ خط لے لینا۔ ہم روانہ ہوئے اور ہمارے گھوڑے ہمیں تیزی کے ساتھ لیے جا رہے تھے۔ آخر ہم روضہ خاخ پر پہنچ گئے اور وہاں واقعی ایک بوڑھی عورت موجود تھی جو اونٹ پر سوار تھی۔ ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال۔ اس نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں۔ لیکن جب ہم نے اسے دھمکی دی کہ اگر تو نے خط نہ نکالا تو تمہارے کپڑے ہم خود اتار دیں گے۔ اس پر اس نے اپنی گندھی ہوئی چوٹی کے اندر سے خط نکال کردیا ‘ اور ہم اسے رسول اللہ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے ‘ اس کا مضمون یہ تھا ‘ حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین مکہ کے چند آدمیوں کی طرف ‘ اس میں انہوں نے رسول اللہ کے بعض بھیدوں کی خبر دی تھی۔ آپ نے فرمایا: اے حاطب! یہ کیا واقعہ ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے بارے میں عجلت سے کام نہ لیجئے۔ میری حیثیت (مکہ میں) یہ تھی کہ قریش کے ساتھ میں نے رہنا سہنا اختیار کرلیا تھا ‘ ان سے رشتہ ناتہ میرا کچھ بھی نہ تھا۔ آپ کے ساتھ جو دوسرے مہاجرین ہیں ان کی تو مکہ میں سب کی رشتہ داری ہے اور مکہ والے اسی وجہ سے ان کے عزیزوں کی اور ان کے مالوں کی حفاظت و حمایت کریں گے مگر مکہ والوں کے ساتھ میرا کوئی نسبی تعلق نہیں ہے ‘ اس لیے میں نے سوچا کہ ان پر کوئی احسان کر دوں جس سے اثر لے کر وہ میرے بھی عزیزوں کی مکہ میں حفاظت کریں۔ میں نے یہ کام کفر یا ارتداد کی وجہ سے ہرگز نہیں کیا ہے اور نہ اسلام کے بعد کفر سے خوش ہو کر۔ رسول اللہ نے سن کر فرمایا کہ حاطب نے سچ کہا ہے۔ عمر ؓ نے کہا: یا رسول اللہ! اجازت دیجئیے میں اس منافق کا سر اڑا دوں ‘ آپ نے فرمایا نہیں ‘ یہ بدر کی لڑائی میں ( مسلمانوں کے ساتھ مل کر) لڑے ہیں اور تمہیں معلوم نہیں ‘ اللہ تعالیٰ مجاہدین بدر کے احوال (موت تک کے) پہلے ہی سے جانتا تھا ‘ اور وہ خود ہی فرما چکا ہے کہ تم جو چاہو کرو میں تمہیں معاف کرچکا ہوں۔ سفیان بن عیینہ نے کہا کہ حدیث کی یہ سند بھی کتنی عمدہ ہے۔
Top