صحیح مسلم - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1007
حدیث نمبر: 4638
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى الْمَازِنِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ جَاءَ رَجُلٌ مِنْ الْيَهُودِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ لُطِمَ وَجْهُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ يَا مُحَمَّدُ:‏‏‏‏ إِنَّ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِكَ مِنْ الْأَنْصَارِ لَطَمَ فِي وَجْهِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ادْعُوهُ، ‏‏‏‏‏‏فَدَعَوْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لِمَ لَطَمْتَ وَجْهَهُ ؟قَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي مَرَرْتُ بِالْيَهُودِ، ‏‏‏‏‏‏فَسَمِعْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَى الْبَشَرِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ وَعَلَى مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَخَذَتْنِي غَضْبَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلَطَمْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا تُخَيِّرُونِي مِنْ بَيْنِ الْأَنْبِيَاءِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ النَّاسَ يَصْعَقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُفِيقُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا أَنَا بِمُوسَى آخِذٌ بِقَائِمَةٍ مِنْ قَوَائِمِ الْعَرْشِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا أَدْرِي أَفَاقَ قَبْلِي أَمْ جُزِيَ بِصَعْقَةِ الطُّورِ، ‏‏‏‏‏‏الْمَنَّ وَالسَّلْوَى.
باب: آیت کی تفسیر ”اور جب موسیٰ ہمارے مقرر کردہ وقت پر (کوہ طور) پر آ گئے اور ان سے ان کے رب نے کلام کیا، موسیٰ بولے، اے میرے رب! مجھے تو اپنا دیدار کرا دے (کہ) میں تجھ کو ایک نظر دیکھ لوں (اللہ تعالیٰ نے فرمایا) تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے، البتہ تم (اس) پہاڑ کی طرف دیکھو، سو اگر یہ اپنی جگہ پر قائم رہا تو تم (مجھ کو بھی دیکھ سکو گے، پھر جب ان کے رب نے پہاڑ پر اپنی تجلی ڈالی تو (تجلی نے) پہاڑ کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور موسیٰ بیہوش ہو کر گر پڑے، پھر جب انہیں ہوش آیا تو بولے اے رب! تو پاک ہے، میں تجھ سے معافی طلب کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں“۔
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عمرو بن یحییٰ مازنی نے، ان سے ان کے والد یحییٰ مازنی نے اور ان سے ابو سعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ ایک یہودی رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس کے منہ پر کسی نے طمانچہ مارا تھا۔ اس نے کہا: اے محمد! آپ کے انصاری صحابہ میں سے ایک شخص نے مجھے طمانچہ مارا ہے۔ نبی کریم نے فرمایا کہ انہیں بلاؤ۔ لوگوں نے انہیں بلایا، پھر آپ نے ان سے پوچھا تم نے اسے طمانچہ کیوں مارا ہے؟ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں یہودیوں کی طرف سے گزرا تو میں نے سنا کہ یہ کہہ رہا تھا۔ اس ذات کی قسم! جس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تمام انسانوں پر فضیلت دی۔ میں نے کہا اور محمد پر بھی۔ مجھے اس کی بات پر غصہ آگیا اور میں نے اسے طمانچہ مار دیا۔ نبی کریم نے اس پر فرمایا کہ مجھے انبیاء پر فضیلت نہ دیا کرو۔ قیامت کے دن تمام لوگ بیہوش کردیئے جائیں گے۔ سب سے پہلے میں ہوش میں آؤں گا لیکن میں موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھوں گا کہ وہ عرش کا ایک پایہ پکڑے کھڑے ہوں گے اب مجھے نہیں معلوم کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے یا طور کی بےہوشی کا انہیں بدلہ دیا گیا۔
Top