صحیح مسلم - زکوۃ کا بیان - حدیث نمبر 2232
حدیث نمبر: 2769
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ كَانَ أَبُو طَلْحَةَ أَكْثَرَ أَنْصَارِيٍّ بِالْمَدِينَةِ مَالًا مِنْ نَخْلٍ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ أَحَبُّ مَالِهِ إِلَيْهِ بَيْرُحَاءَ مُسْتَقْبِلَةَ الْمَسْجِدِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَيَدْخُلُهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَاءٍ فِيهَا طَيِّبٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَنَسٌ:‏‏‏‏ فَلَمَّا نَزَلَتْ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ سورة آل عمران آية 92 قَامَ أَبُو طَلْحَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ سورة آل عمران آية 92 وَإِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِي إِلَيَّ بَيْرُحَاءَ وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ لِلَّهِ أَرْجُو بِرَّهَا، ‏‏‏‏‏‏وَذُخْرَهَا عِنْدَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَضَعْهَا حَيْثُ أَرَاكَ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ بَخْ، ‏‏‏‏‏‏ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ أَوْ رَايِحٌ، ‏‏‏‏‏‏شَكَّ ابْنُ مَسْلَمَةَ وَقَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَجْعَلَهَا فِي الْأَقْرَبِينَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو طَلْحَةَ:‏‏‏‏ أَفْعَلُ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَسَمَهَا أَبُو طَلْحَةَ فِي أَقَارِبِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي بَنِي عَمِّهِ. وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏ وَيَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكٍ رَايِحٌ.
باب: اگر کسی نے ایک زمین وقف کی (جو مشہور و معلوم ہے) اس کی حدیں بیان نہیں کیں تو یہ جائز ہو گا، اسی طرح ایسی زمین کا صدقہ دینا۔
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے امام مالک نے ‘ ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے ‘ انہوں نے انس بن مالک ؓ سے سنا آپ بیان کرتے تھے کہ ابوطلحہ ؓ کھجور کے باغات کے اعتبار سے مدینہ کے انصار میں سب سے بڑے مالدار تھے اور انہیں اپنے تمام مالوں میں مسجد نبوی کے سامنے بیرحاء کا باغ سب سے زیادہ پسند تھا۔ خود نبی کریم بھی اس باغ میں تشریف لے جاتے اور اس کا میٹھا پانی پیتے تھے۔ انس ؓ نے بیان کیا کہ پھر جب یہ آیت نازل ہوئی لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون‏ نیکی تم ہرگز نہیں حاصل کرو گے جب تک اپنے اس مال سے نہ خرچ کرو جو تمہیں پسند ہوں۔ تو ابوطلحہ ؓ اٹھے اور آ کر رسول اللہ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون‏ تم نیکی ہرگز نہیں حاصل کرسکو گے جب تک اپنے ان مالوں میں سے نہ خرچ کرو جو تمہیں زیادہ پسند ہوں۔ اور میرے اموال میں مجھے سب سے زیادہ پسند بیرحاء ہے اور یہ اللہ کے راستہ میں صدقہ ہے ‘ میں اللہ کی بارگاہ سے اس کی نیکی اور ذخیرہ آخرت ہونے کی امید رکھتا ہوں۔ آپ کو جہاں اللہ تعالیٰ بتائے اسے خرچ کریں۔ آپ نے فرمایا شاباش یہ تو بڑا فائدہ بخش مال ہے یا آپ نے بجائے رابح رابع کے رايح کہا یہ شک عبداللہ بن مسلمہ راوی کو ہوا تھا۔۔۔ اور جو کچھ تم نے کہا میں نے سب سن لیا ہے اور میرا خیال ہے کہ تم اسے اپنے ناطے والوں کو دے دو۔ ابوطلحہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں ایسا ہی کروں گا۔ چناچہ انہوں نے اپنے عزیزوں اور اپنے چچا کے لڑکوں میں تقسیم کردیا۔ اسماعیل ‘ عبداللہ بن یوسف اور یحییٰ بن یحییٰ نے مالک کے واسطہ سے۔ رابح کے بجائے رايح بیان کیا ہے۔
Top