صحیح مسلم - علم کا بیان - حدیث نمبر 4240
حدیث نمبر: 5259
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عُوَيْمِرًا الْعَجْلَانِيَّ جَاءَ إِلَى عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ الْأَنْصَارِيِّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ:‏‏‏‏ يَا عَاصِمُ، ‏‏‏‏‏‏أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَتَقْتُلُونَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ ؟ سَلْ لِي يَا عَاصِمُ عَنْ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَلَ عَاصِمٌ عَنْ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلَ وَعَابَهَا حَتَّى كَبُرَ عَلَى عَاصِمٍ مَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا رَجَعَ عَاصِمٌ إِلَى أَهْلِهِ جَاءَ عُوَيْمِرٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا عَاصِمُ، ‏‏‏‏‏‏مَاذَا قَالَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ عَاصِمٌ:‏‏‏‏ لَمْ تَأْتِنِي بِخَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَدْ كَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْأَلَةَ الَّتِي سَأَلْتُهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عُوَيْمِرٌ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَا أَنْتَهِي حَتَّى أَسْأَلَهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَقْبَلَ عُوَيْمِرٌ حَتَّى أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسْطَ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، ‏‏‏‏‏‏أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ فِيكَ وَفِي صَاحِبَتِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَاذْهَبْ فَأْتِ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ سَهْلٌ:‏‏‏‏ فَتَلَاعَنَا وَأَنَا مَعَ النَّاسِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا فَرَغَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عُوَيْمِرٌ:‏‏‏‏ كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنْ أَمْسَكْتُهَا فَطَلَّقَهَا ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ ابْنُ شِهَابٍ:‏‏‏‏ فَكَانَتْ تِلْكَ سُنَّةُ الْمُتَلَاعِنَيْنِ.
اس شخص کی دلیل جس نے تین طلاقوں کو جائز کہا ہے، اس لئے کہ اللہ نے فرمایا طلاق دو بار ہے، پھر قاعدے کے مطابق روک لینا یا اچھی طرح چھوڑ دینا اور اس مریض کے متعلق جس نے (بحالت مرض اپنی بیوی کو) طلاق دے دی، ابن زبیر نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ وہ عدت گذارنے والی عورت اس کی وارث ہوگی، شعبی نے کہا کہ وہ وارث ہوگی، ابن شبرمہ نے پوچھا کہ وہ عدت گذر جانے کے بعد نکاح کرسکتی ہے، انہوں نے کہا ہاں، پھر پوچھا بتائیے کہ اگر دوسرا شوہر مر جائے (تو کیا ہوگا) شعبی نے اپنے قول سے رجوع کرلیا
ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے اور انہیں سہل بن سعد ساعدی ؓ نے خبر دی کہ عویمر العجانی ؓ عاصم بن عدی انصاری ؓ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ اے عاصم! تمہارا کیا خیال ہے، اگر کوئی اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر کو دیکھے تو کیا اسے وہ قتل کرسکتا ہے؟ لیکن پھر تم قصاص میں اسے (شوہر کو) بھی قتل کر دو گے یا پھر وہ کیا کرے گا؟ عاصم میرے لیے یہ مسئلہ آپ رسول اللہ سے پوچھ دیجئیے۔ عاصم ؓ نے جب نبی کریم سے یہ مسئلہ پوچھا تو نبی کریم نے اس سوالات کو ناپسند فرمایا اور اس سلسلے میں نبی کریم کے کلمات عاصم ؓ پر گراں گزرے اور جب وہ واپس اپنے گھر آگئے تو عویمر ؓ نے آ کر ان سے پوچھا کہ بتائیے آپ سے نبی کریم نے کیا فرمایا؟ عاصم نے اس پر کہا تم نے مجھ کو آفت میں ڈالا۔ جو سوال تم نے پوچھا تھا وہ نبی کریم کو ناگوار گزرا۔ عویمر نے کہا کہ اللہ کی قسم! یہ مسئلہ نبی کریم سے پوچھے بغیر میں باز نہیں آؤں گا۔ چناچہ وہ روانہ ہوئے اور نبی کریم کی خدمت میں پہنچے۔ نبی کریم لوگوں کے درمیان میں تشریف رکھتے تھے۔ عویمر ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر کو پا لیتا ہے تو آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا وہ اسے قتل کر دے؟ لیکن اس صورت میں آپ اسے قتل کردیں گے یا پھر اسے کیا کرنا چاہیے؟ نبی کریم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری بیوی کے بارے میں وحی نازل کی ہے، اس لیے تم جاؤ اور اپنی بیوی کو بھی ساتھ لاؤ۔ سہل نے بیان کیا کہ پھر دونوں (میاں بیوی) نے لعان کیا۔ لوگوں کے ساتھ میں بھی رسول اللہ کے ساتھ اس وقت موجود تھا۔ لعان سے جب دونوں فارغ ہوئے تو عویمر ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر اس کے بعد بھی میں اسے اپنے پاس رکھوں تو (اس کا مطلب یہ ہوگا کہ) میں جھوٹا ہوں۔ چناچہ انہوں نے نبی کریم کے حکم سے پہلے ہی اپنی بیوی کو تین طلاق دی۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ پھر لعان کرنے والے کے لیے یہی طریقہ جاری ہوگیا۔
Top