مسند امام احمد - حضرت ابن عابس کی حدیث۔ - حدیث نمبر 7428
حدیث نمبر: 3752
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْنَا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّكَ تَبْعَثُنَا، ‏‏‏‏‏‏فَنَنْزِلُ بِقَوْمٍ فَمَا يَقْرُونَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَمَا تَرَى ؟، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنْ نَزَلْتُمْ بِقَوْمٍ فَأَمَرُوا لَكُمْ بِمَا يَنْبَغِي لِلضَّيْفِ فَاقْبَلُوا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ لَمْ يَفْعَلُوا، ‏‏‏‏‏‏فَخُذُوا مِنْهُمْ حَقَّ الضَّيْفِ الَّذِي يَنْبَغِي لَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ وَهَذِهِ حُجَّةٌ لِلرَّجُلِ يَأْخُذُ الشَّيْءَ إِذَا كَانَ لَهُ حَقًّا.
ضیافت سے متعلق
عقبہ بن عامر ؓ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ہمیں (جہاد یا کسی دوسرے کام کے لیے) بھیجتے ہیں تو (بسا اوقات) ہم کسی قوم میں اترتے ہیں اور وہ لوگ ہماری مہمان نوازی نہیں کرتے تو اس سلسلے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ تو رسول اللہ نے ہم سے فرمایا: اگر تم کسی قوم میں جاؤ اور وہ لوگ تمہارے لیے ان چیزوں کا انتظام کردیں جو مہمان کے لیے چاہیئے تو اسے تم قبول کرو اور اگر وہ نہ کریں تو ان سے مہمانی کا حق جو ان کے حسب حال ہو لے لو ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ اس شخص کے لیے دلیل ہے جس کا حق کسی کے ذمہ ہو تو وہ اپنا حق لے سکتا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المظالم ١٨ (٢٤٦١)، الأدب ٨٥ (٦١٣٧)، صحیح مسلم/اللقطة ٣ (١٧٢٧)، سنن الترمذی/السیر ٣٢ (١٥٨٩)، سنن ابن ماجہ/الأدب ٥ (٣٦٧٦)، (تحفة الأشراف: ٩٩٥٤)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٤/١٤٩) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: رسول اللہ نے جب کافروں سے صلح کی تھی تو اس صلح میں یہ بھی طے ہوا تھا کہ اگر مسلمان تمہارے ملک میں آئیں جائیں تو ان کی ضیافت لازمی ہے، اس حدیث میں وہی لوگ مراد ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسافر مسلمانوں کو اپنی مہمان نوازی پر مجبور کرے، یہ اور بات ہے کہ مہمان نوازی اور ضیافت مسنون و مستحب ہے۔
Top