مسند امام احمد - حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ - حدیث نمبر 1468
حدیث نمبر: 975
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى أَبُو دَاوُدَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سَعْدِ بْنِ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ،‏‏‏‏حَدَّثَنِي خُبَيْبُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ سَمُرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ سُلَيْمَانَ بْنِ سَمُرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، ‏‏‏‏‏‏أَمَّا بَعْدُأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ فِي وَسَطِ الصَّلَاةِ أَوْ حِينَ انْقِضَائِهَا فَابْدَءُوا قَبْلَ التَّسْلِيمِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُولُوا:‏‏‏‏ التَّحِيَّاتُ الطَّيِّبَاتُ وَالصَّلَوَاتُ وَالْمُلْكُ لِلَّهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سَلِّمُوا عَلَى الْيَمِينِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سَلِّمُوا عَلَى قَارِئِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلَى أَنْفُسِكُمْ. قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى كُوفِيُّ الْأَصْلِ كَانَ بِدِمَشْقَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ دَلَّتْ هَذِهِ الصَّحِيفَةُ عَلَى أَنَّ الْحَسَنَ سَمِعَ مِنْ سَمُرَةَ.
تشہد کا بیان
سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے اما بعد کے بعد کہا کہ رسول اللہ نے ہمیں حکم دیا کہ جب تم نماز کے بیچ میں یا اخیر میں بیٹھو تو سلام پھیرنے سے قبل یہ دعا پڑھو: التحيات الطيبات والصلوات والملک لله پھر دائیں جانب سلام پھیرو، پھر اپنے قاری پر اور خود اپنے اوپر سلام کرو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ صحیفہ (جسے سمرہ نے اپنے بیٹے کے پاس لکھ کر بھیجا تھا) یہ بتارہا ہے کہ حسن بصری نے سمرہ سے سنا ہے ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ٤٦١٧) (ضعیف) (اس کے راوی سلیمان بن موسیٰ ضعیف ہیں )
وضاحت: ١ ؎: اس جملے کا باب سے تعلق یہ ہے کہ یہ الفاظ جنہیں سلیمان بن سمرہ نے اپنے والد سمرہ ؓ سے روایت کیا ہے اس صحیفہ کے الفاظ ہیں جنہیں سمرہ نے املا کرایا تھا اور جنہیں ان سے ان کے بیٹے سلیمان نے روایت کیا ہے، ابوداود کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح سلیمان بن سمرہ کا سماع اپنے والد سمرہ سے ثابت ہے اسی طرح حسن بصری کا سماع بھی ثابت ہے کیونکہ یہ دونوں طبقہ ثالثہ کے راوی ہیں تو جب سلیمان اپنے والد سمرہ سے سن سکتے ہیں تو حسن بصری کے سماع کے لئے بھی کوئی چیز مانع نہیں، بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ حسن بصری نے سمرہ سے صرف عقیقہ والی حدیث سنی ہے اور باقی حدیثیں جو سمرہ سے وہ روایت کرتے ہیں وہ اسی صحیفہ میں لکھی ہوئی حدیثیں ہیں سمرہ سے ان کی سنی ہوئی نہیں ہیں ابو داود نے اسی خیال کی تردید کی ہے۔
Top