صحیح مسلم - سورج گرہن کا بیان - حدیث نمبر 2189
حدیث نمبر: 398
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الْمِنْهَالِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بَرْزَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الظُّهْرَ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ، ‏‏‏‏‏‏وَيُصَلِّي الْعَصْرَ وَإِنَّ أَحَدَنَا لَيَذْهَبُ إِلَى أَقْصَى الْمَدِينَةِ وَيَرْجِعُ وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَنَسِيتُ الْمَغْرِبَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ لَا يُبَالِي تَأْخِيرَ الْعِشَاءِ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ إِلَى شَطْرِ اللَّيْلِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَكَانَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَالْحَدِيثَ بَعْدَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ يُصَلِّي الصُّبْحَ وَمَا يَعْرِفُ أَحَدُنَا جَلِيسَهُ الَّذِي كَانَ يَعْرِفُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ يَقْرَأُ فِيهَا مِنَ السِّتِّينَ إِلَى الْمِائَةِ.
نبی کی نماز کی کیفیت اور انکے اوقات کا بیان
ابوبرزہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ظہر سورج ڈھل جانے پر پڑھتے اور عصر اس وقت پڑھتے کہ ہم میں سے کوئی آدمی مدینہ کے آخری کنارے پر جا کر وہاں سے لوٹ آتا، اور سورج زندہ رہتا (یعنی صاف اور تیز رہتا) اور مغرب کو میں بھول گیا، اور عشاء کو تہائی رات تک مؤخر کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے، پھر انہوں نے کہا: آدھی رات تک مؤخر کرنے میں (کوئی حرج محسوس نہیں کرتے) فرمایا: آپ عشاء سے پہلے سونے ١ ؎ کو اور عشاء کے بعد بات چیت کو برا جانتے تھے ٢ ؎، اور فجر پڑھتے اور حال یہ ہوتا کہ ہم میں سے ایک اپنے اس ساتھی کو جسے وہ اچھی طرح جانتا ہوتا، اندھیرے کی وجہ سے پہچان نہیں پاتا، اس میں آپ ساٹھ آیتوں سے لے کر سو آیتوں تک پڑھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المواقیت ١١ (٥٤١)، ١٣ (٥٤٧)، ٢٣ (٥٦٨)، ٣٨ (٥٩٨)، صحیح مسلم/المساجد ٤٠ (٦٤٧)، سنن الترمذی/الصلاة ١١ (١٦٨)، سنن النسائی/المواقیت ١ (٤٩٦)، ١٦ (٥٢٦)، ٢٠ (٥٣١)، الافتتاح ٤٢ (٩٤٩)، سنن ابن ماجہ/الصلاة ٣ (٦٧٤)، ١٢ (٧٠١)، (تحفة الأشراف: ١١٦٠٥)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٤/٤٢٠، ٤٢١، ٤٢٣، ٤٢٤، ٤٢٥)، سنن الدارمی/الصلاة ٦٦ (١٣٣٨)، ویأتي في الأدب ٤٨٩٤ (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: عشاء سے پہلے سونے کو اکثر علماء نے مکروہ کہا ہے، بعضوں نے اس کی اجازت دی ہے، امام نووی نے کہا ہے کہ اگر نیند کا غلبہ ہو اور نماز کی قضا کا اندیشہ نہ ہو تو سونے میں کوئی حرج نہیں۔ ٢ ؎: مراد لایعنی باتیں ہیں جن سے دنیا و آخرت کا کوئی مفاد وابستہ نہ ہو۔
Top