صحیح مسلم - پینے کی چیزوں کا بیان - حدیث نمبر 743
حدیث نمبر: 4694
حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ مَنْصُورَ بْنَ الْمُعْتَمِرِ يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَبِيبٍ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلِيٍّ رضي الله عنه، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا فِي جَنَازَةٍ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَقِيعِ الْغَرْقَدِ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَجَلَسَ وَمَعَهُ مِخْصَرَةٌ فَجَعَلَ يَنْكُتُ بِالْمِخْصَرَةِ فِي الْأَرْضِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ مَكَانَهَا مِنَ النَّارِ أَوْ مِنَ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا قَدْ كُتِبَتْ شَقِيَّةً أَوْ سَعِيدَةً، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ:‏‏‏‏ يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَفَلَا نَمْكُثُ عَلَى كِتَابِنَا وَنَدَعُ الْعَمَلَ فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ لَيَكُونَنَّ إِلَى السَّعَادَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الشِّقْوَةِ لَيَكُونَنَّ إِلَى الشِّقْوَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ أَمَّا أَهْلُ السَّعَادَةِ فَيُيَسَّرُونَ لِلسَّعَادَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا أَهْلُ الشِّقْوَةِ فَيُيَسَّرُونَ لِلشِّقْوَةِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ:‏‏‏‏ فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى ‏‏‏‏ 5 ‏‏‏‏ وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى ‏‏‏‏ 6 ‏‏‏‏ فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى ‏‏‏‏ 7 ‏‏‏‏ وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى ‏‏‏‏ 8 ‏‏‏‏ وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى ‏‏‏‏ 9 ‏‏‏‏ فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى ‏‏‏‏ 10 ‏‏‏‏ سورة الليل آية 5-10.
تقدیر کا بیان
علی ؓ کہتے ہیں کہ ہم مدینہ کے قبرستان بقیع غرقد میں ایک جنازے میں شریک تھے، جس میں رسول اللہ بھی تھے، آپ آئے اور بیٹھ گئے، آپ کے پاس ایک چھڑی تھی، چھڑی سے زمین کریدنے لگے، پھر اپنا سر اٹھایا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ہر ایک متنفس کا ٹھکانہ جنت یا دوزخ میں لکھ دیا ہے، اور یہ بھی کہ وہ نیک بخت ہوگا یا بدبخت لوگوں میں سے ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے نبی! پھر ہم کیوں نہ اپنے لکھے پر اعتماد کر کے بیٹھ رہیں اور عمل ترک کردیں کیونکہ جو نیک بختوں میں سے ہوگا وہ لازماً نیک بختی کی طرف جائے گا اور جو بدبختوں میں سے ہوگا وہ ضرور بدبختی کی طرف جائے گا؟ آپ نے فرمایا: عمل کرو، ہر ایک کے لیے اس کا عمل آسان ہے، اہل سعادت کے لیے سعادت کی راہیں آسان کردی جاتی ہیں اور بدبختوں کے لیے بدبختی کی راہیں آسان کردی جاتی ہیں پھر نبی اکرم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنایا: جو شخص اللہ کے راستے میں خرچ کرے، اللہ سے ڈرے، اور کلمہ توحید کی تصدیق کرے تو ہم اس کے لیے آسانی اور خوشی کی راہ آسان کردیں گے، اور جو شخص بخل کرے، دنیوی شہوات میں پڑ کر جنت کی نعمتوں سے بےپروائی برتے اور کلمہ توحید کو جھٹلائے تو ہم اس کے لیے سختی اور بدبختی کی راہ آسان کردیں گے ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجنائز ٨٢ (١٣٦٢)، تفسیر سورة اللیل ٣ (٤٩٤٥)، الأدب ١٢٠ (٦٢١٧)، القدر ٤ (٦٦٠٥)، التوحید ٥٤ (٧٥٥٢)، صحیح مسلم/القدر ١ (٢٦٤٧)، سنن الترمذی/القدر ٣ (٢١٣٦)، والتفسیر ٨٠ (٣٣٤٤)، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٠ (٧٨)، (تحفة الأشراف: ١٠١٦٧)، وقد أخرجہ: مسند احمد ١/٨٢، ١٢٩، ١٣٢، ١٤٠) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: اس حدیث میں اس شیطانی وسوسہ کا جواب رسول اللہ نے دیا، جو اکثر لوگوں کے ذہن میں آتا ہے، اور ان کو بدعملی پر ابھارتا ہے، جب جنتی اور جہنمی کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا ہے تو عمل کیوں کریں؟ آپ نے فرمایا: کسی کو معلوم نہیں کہ اس کے مقدر میں کیا لکھا ہے، لہٰذا ہر شخص کو نیک عمل کرنا چاہیے کہ یہی نیکی کی راہ، اور یہی جنت میں جانے کا سبب ہے، بندے کو اس بحث میں پڑے بغیر کہ وہ کہاں جائے گا نیک عمل کرتے رہنا چاہیے، تاکہ وہ اللہ کی رحمت کا مستحق ہو، اور نتیجے میں جنت نصیب ہو، آمین۔
Top