صحیح مسلم - - حدیث نمبر 2123
حدیث نمبر: 3583
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ فَأَقْضِيَ لَهُ عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ بِشَيْءٍ فَلَا يَأْخُذْ مِنْهُ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّار.
قاضی کے فیصلہ میں خطا کا بیان
ام المؤمنین ام سلمہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: میں انسان ہی ہوں ١ ؎، تم اپنے مقدمات کو میرے پاس لاتے ہو، ہوسکتا ہے کہ تم میں کچھ لوگ دوسرے کے مقابلہ میں اپنی دلیل زیادہ بہتر طریقے سے پیش کرنے والے ہوں تو میں انہیں کے حق میں فیصلہ کر دوں جیسا میں نے ان سے سنا ہو، تو جس شخص کے لیے میں اس کے بھائی کے کسی حق کا فیصلہ کر دوں تو وہ اس میں سے ہرگز کچھ نہ لے کیونکہ میں اس کے لیے آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ رہا ہوں ۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المظالم ١٦ (٢٤٥٨)، الشھادات ٢٧ (٢٦٨٠)، الحیل ١٠ (٦٩٦٧)، الأحکام ٢٠ (٧١٦٩)، ٢٩ (٧١٨١)، ٣١ (٧١٨٥)، صحیح مسلم/الأقضیة ٣ (١٧١٣)، سنن الترمذی/الأحکام ١١ (١٣٣٩)، سنن النسائی/ القضاة ١٢(٥٤٠٣)، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٥ (٢٣١٧)، (تحفة الأشراف: ١٨٢٦١)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الأقضیة ١ (١)، مسند احمد (٦/٣٠٧، ٣٢٠) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: یعنی میں انسان ہوں اور انسان کو معاملہ کی حقیقت اور اس کے باطنی امر کا علم نہیں ہوتا، اس لیے کتاب اللہ کے ظاہر کے موافق لوگوں کے درمیان فیصلہ کروں گا، اگر کوئی شخص اپنی منہ زوری اور چرب زبانی سے دھوکا دے کر حاکم سے اپنے حق میں فیصلہ لے لے اور دوسرے کا حق چھین لے تو وہ مال اس کے حق میں اللہ کے نزدیک حرام ہوگا اور اس کا انجام جہنم کا عذاب ہے، آپ کے فرمان سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جیسے اور لوگوں کو غیب کا حال معلوم نہیں ظاہر پر فیصلہ کرتے ہیں اسی طرح آپ کو بھی غیب کی ہر بات معلوم نہیں، موجودہ زمانہ کی عدالتی کارروائیوں اور وکلاء کی چرب زبانیوں اور رشوتوں اور سفارشوں کے نتیجہ میں ہونے والی جیت سے خوش ہونے والے مسلمانوں کے لئے اس ارشاد نبوی میں بہت بڑی موعظت اور نصیحت ہے۔
Top