صحیح مسلم - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4031
حدیث نمبر: 2717
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍمَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَامِ حُنَيْنٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا الْتَقَيْنَا كَانَتْ لِلْمُسْلِمِينَ جَوْلَةٌ قَالَ:‏‏‏‏ فَرَأَيْتُ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ قَدْ عَلَا رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ قَالَ:‏‏‏‏ فَاسْتَدَرْتُ لَهُ حَتَّى أَتَيْتُهُ مِنْ وَرَائِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ عَلَى حَبْلِ عَاتِقِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَقْبَلَ عَلَيَّ فَضَمَّنِي ضَمَّةً وَجَدْتُ مِنْهَا رِيحَ الْمَوْتِ ثُمَّ أَدْرَكَهُ الْمَوْتُ فَأَرْسَلَنِي فَلَحِقْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَقُلْتُ لَهُ:‏‏‏‏ مَا بَالُ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَمْرُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ رَجَعُوا وَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَلَهُ سَلَبُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقُمْتُ ثُمَّ قُلْتُ:‏‏‏‏ مَنْ يَشْهَدُ لِي ؟ ثُمَّ جَلَسْتُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ ذَلِكَ الثَّانِيَةَ:‏‏‏‏ مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَلَهُ سَلَبُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقُمْتُ ثُمَّ قُلْتُ:‏‏‏‏ مَنْ يَشْهَدُ لِي ؟ ثُمَّ جَلَسْتُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ ذَلِكَ الثَّالِثَةَ:‏‏‏‏ فَقُمْتُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَا لَكَ يَا أَبَا قَتَادَةَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ فَاقْتَصَصْتُ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ:‏‏‏‏ صَدَقَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَلَبُ ذَلِكَ الْقَتِيلِ عِنْدِي فَأَرْضِهِ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ:‏‏‏‏ لَاهَا اللَّهِ إِذًا يَعْمِدُ إِلَى أَسَدٍ مِنْ أُسْدِ اللَّهِ يُقَاتِلُ عَنِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ رَسُولِهِ فَيُعْطِيكَ سَلَبَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ صَدَقَ فَأَعْطِهِ إِيَّاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَبُو قَتَادَةَ:‏‏‏‏ فَأَعْطَانِيهِ فَبِعْتُ الدِّرْعَ فَابْتَعْتُ بِهِ مَخْرَفًا فِي بَنِي سَلَمَةَ فَإِنَّهُ لَأَوَّلُ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ فِي الْإِسْلَامِ.
جو شخص کسی کافر کو قتل کرے اس کا اس اسی کو دیا جائے
ابوقتادہ ؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ کے ساتھ حنین کے سال نکلے، جب کافروں سے ہماری مڈبھیڑ ہوئی تو مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی، میں نے مشرکین میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ایک مسلمان پر چڑھا ہوا ہے، تو میں پلٹ پڑا یہاں تک کہ اس کے پیچھے سے اس کے پاس آیا اور میں نے تلوار سے اس کی گردن پر مارا تو وہ میرے اوپر آپڑا، اور مجھے ایسا دبوچا کہ میں نے اس سے موت کی مہک محسوس کی، پھر اسے موت آگئی اور اس نے مجھے چھوڑ دیا، پھر میں عمر بن خطاب ؓ سے ملا اور ان سے پوچھا کہ لوگوں کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: وہی ہوا جو اللہ کا حکم تھا، پھر لوگ لوٹے اور رسول اللہ بیٹھ گئے اور فرمایا: جس شخص نے کسی کافر کو قتل کیا ہو اور اس کے پاس گواہ ہو تو اس کا سامان اسی کو ملے گا ١ ؎۔ ابوقتادہ ؓ کہتے ہیں: (جب میں نے یہ سنا) تو میں اٹھ کھڑا ہوا، پھر میں نے سوچا میرے لیے کون گواہی دے گا یہی سوچ کر بیٹھ گیا، پھر آپ نے دوسری بار فرمایا: جو شخص کسی کافر کو قتل کر دے اور اس کے پاس گواہ ہو تو اس کا سامان اسی کو ملے گا ۔ ابوقتادہ ؓ کہتے ہیں (جب میں نے یہ سنا) تو اٹھ کھڑا ہوا، پھر میں نے سوچا میرے لیے کون گواہی دے گا یہی سوچ کر بیٹھ گیا۔ پھر آپ نے تیسری مرتبہ یہی بات کہی پھر میں اٹھ کھڑا ہوا، تو رسول اللہ نے فرمایا: ابوقتادہ کیا بات ہے؟ میں نے آپ سے سارا معاملہ بیان کیا، تو قوم کے ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! یہ سچ کہہ رہے ہیں اور اس مقتول کا سامان میرے پاس ہے، آپ ان کو اس بات پر راضی کرلیجئے (کہ وہ مال مجھے دے دیں) اس پر ابوبکر صدیق ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! رسول اللہ کبھی بھی ایسا نہ کریں گے کہ اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لڑے اور سامان تمہیں مل جائے، رسول اللہ نے فرمایا: وہ سچ کہہ رہے ہیں، تم اسے ابوقتادہ کو دے دو ۔ ابوقتادہ ؓ کہتے ہیں: اس نے مجھے دے دیا، تو میں نے زرہ بیچ دی اور اس سے میں نے ایک باغ قبیلہ بنو سلمہ میں خریدا، اور یہ پہلا مال تھا جو میں نے اسلام میں حاصل کیا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/البیوع ٣٧ (٢١٠٠)، فرض الخمس ١٨ (٣١٤٢)، المغازي ٥٤ (٤٣٢١، الأحکام ٢١ (٧١٧٠)، صحیح مسلم/الجھاد ١٣ (١٥٧١)، سنن الترمذی/السیر ١٣ (١٥٦٢)، سنن ابن ماجہ/ الجہاد ٢٩ (٢٨٣٧)، (تحفة الأشراف: ١٢١٣٢)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الجھاد ١٠ (١٨)، مسند احمد (٥/٢٩٥، ٢٩٦، ٣٠٦)، سنن الدارمی/السیر ٤٤ (٢٥٢٨) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: جنگ حنین میں مسلمان تعداد میں زیادہ تھے، لیکن تعلي اور کثرت تعداد کے زعم کی وجہ سے انہیں شکست ہوئی، میدان جنگ سے لوگ بھاگ کھڑے ہوئے، رسول اکرم اور چند جانثار صحابہ رہ گئے تھے، بھگدڑ سے یہی مراد ہے، بعد میں جنگ کا پانسہ پلٹا اور مسلمان فتح یاب ہوئے۔
Top